یوم تکبیر کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف کی تقریر سن کرخوشی ہوئی‘ عمران خان کو مہرہ تو قرار دیا مگر خلائی مخلوق کا نہیں‘ خار کمرکیمپ حادثہ کی ذمہ داری بھی انہوں نے سکیورٹی فورسز پر نہ ڈالی حالانکہ ایک روز قبل وہ اپنی ٹویٹ میں بلاول بھٹو کی طرح محسن داوڑ اور علی وزیرکو بے گناہ اور سکیورٹی اداروں کو قصور وار قرار دے چکی تھیں۔ یوم تکبیر پر انہوں نے یہ تک کہہ ڈالا کہ عمران خان نے سانحہ وزیرستان پر جوابدہی کے لئے فوج کو اکیلا چھوڑ دیا جبکہ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے موقع پر میاں نواز شریف عسکری قوت کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیے۔ اللہ اکبر یہ لوٹنے کی جائے ہے۔ یہ قلب ماہیت اور کایا کلپ کسی اندرونی دبائو کا نتیجہ ہے یا فوج سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ شنید تو یہ تھی کہ مسلم لیگ(ن) نے میاں شہباز شریف کے بیانئے کو ترک کر کے ہرچہ بادا باد کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور ٹارگٹ اب عمران خان نہیں بلکہ اسے اقتدار میں لانے والے ادارے ہوں گے۔ لیکن گزشتہ روز مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کی تقریروں کا پیٹرن یکساں تھا‘ فوج کی بالواسطہ یا براہ راست تعریف بلکہ چاپلوسی اور حکومت پر بے رحمانہ تنقید۔ تو کیا میاں شہباز شریف کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں اور شریف خاندان اسٹیبلشمنٹ سے نہ بگاڑنے کی دیرینہ پالیسی کی طرف پلٹ رہا ہے؟ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے ڈیڑھ پونے دو سال تک فوج اور عدلیہ کو براہ راست طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر کرپشن کے مقدمات سے توجہ ہٹانے اور دبائو ڈال کر رعائت حاصل کرنے کی سعی و تدبیر کی‘ نتیجہ صفر نکلا۔ میاں شہباز شریف نے اپنے خاندان کے لئے مراعات حاصل کرنے کی درپردہ کوششوں سے نہ صرف قائد حزب اختلاف بلکہ چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کا منصب حاصل کر لیا اس کے باوجود مسلم لیگ(ن) کے عقابوں نے مسلسل یہ مہم چلائے رکھی کہ شہباز شریف کی پالیسی فلاپ ہے اور عوام میں نواز شریف کے بیانئے کو بھر پور پذیرائی مل رہی ہے۔ حالانکہ نام نہاد عوامی پذیرائی 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کر سکی نہ میاں نواز شریف کو جیل یاترا سے بچا سکی‘ نواز شریف اندر ہیں اور شہبازشریف باہر۔ میاں نواز شریف سے جیل میں ملاقات کرنے والے سیاستدان اور صحافی باہر آ کر ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ میاں صاحب نے اپنے ساتھیوں کو میدان میں نکلنے اور ہرچہ بادا باد کی پالیسی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب مسلم لیگ میں بزدلوں کی گنجائش نہیں لیکن یوم تکبیر کے اجتماعات میں کوئی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک لفظ بولانہ ووٹ کو عزت دو کی بات کی اور نہ خلائی مخلوق کا ذکر ہوا۔ مریم نواز سے شاہد خاقان عباسی اور حمزہ شہباز شریف سے رانا ثناء اللہ تک سب کا زور بیان عمران خان کے خلاف صرف ہوا تو گویا اب اسٹیبلشمنٹ کو خوش کر کے‘ اسے اپنی وفاداری اور نیک چلنی کا یقین دلا کر کسی نئی سازش کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں؟ عمران خان کو نااہل اور نالائق ثابت کر کے اپنی خدمات پیش کی جا رہی ہیں؟ ایٹمی تجربات کے حوالے سے میاں نوازشریف کی خدمات کا انکار ممکن نہیں‘ گوہر ایوب خاں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان کا موقف یہی ہے کہ انہوں نے فوج ‘ عوام اور میڈیا کے دبائو میں آ کر یہ دھماکے کئے لیکن اگر سید مشاہد حسین کی گواہی قابل قبول ہے تو وہ دوشنبے کی میٹنگ کا حوالہ دیتے ہیں جہاں سے میاں صاحب نے ایٹمی سائنس دانوں کو تیاری کا حکم دیا۔ لیکن ایٹمی پروگرام کا سارا کریڈٹ میاں نواز شریف لے سکتے ہیں نہ ذوالفقار علی بھٹو کے پلّے ڈال کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق کی حق تلفی ممکن ہے بھٹو دور میں یہ محض ایک خواب تھا اور نواز شریف کو ایٹم بم بنا بنایا ملا۔ سارا ٹھوس کام ضیاء الحق دور میں ہوا اور انہیں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کی تکمیل کی سزا ملی اس کا ذکر مگر اعجاز الحق نہیں کرتے تو کسی دوسریکو کیا پڑی ہے۔ بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی جلا وطنی کا ایٹمی پروگرام یا دھماکوں سے تعلق تھا‘ نہ ہو سکتا ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف پروگرام جاری نہ رکھتے اور رول بیک کے امریکی مطالبات آسانی سے مان لئے جاتے۔ اب بھی پاکستان پر حکمرانی امریکی ایجنٹوں کی نہیں کہ نواز شریف کی جیل یاترا کا سبب امریکی ناراضگی قرار پائے۔ اس وقت عمران خان کے خلاف قومی سطح پر جو فضا بنائی جا رہی ہے وہ ایک تو شریف خاندان اورزرداری خاندان کے خلاف جاری احتساب کا عمل ہے جو چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف ویڈیو سکینڈل سامنے آنے کے بعد رک پایا ہے نہ چیئرمین فی الحال استعفے پر تیار ہیں‘ دوسرے اس کی اہم ترین وجہ امریکہ و ایران کے مابین بڑھتی محاذ آرائی اور خطے میں جنگ کے خطرات ہیں۔ امریکہ کی یہ شدید خواہش ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور محاذ آرائی کو ہواملے اور متوقع جنگ کی صورت میں پاکستان جنرل پرویز مشرف ٹائپ کسی غیر مقبول رہنما کی سربراہی میں امریکی اتحاد کا حصہ بنے لیکن کیا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر سڑکوں پر آنے اور امریکی خواہش کی تکمیل کرنے کے لئے تیار ہیں؟ ملک گیر افراتفری کی صورت میں کیا ان ہائوس تبدیلی یا عام انتخابات کی راہ ہموار ہو گی ؟یا مصر جیسے حالات پیدا ہوں گے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ امریکہ کی چہیتی ہے نہ عمران خان ٹرمپ اور مودی کی آنکھ کا تارا۔ یہ اگر مرسی نہ بھی ہوں تو ایک ایسے رہنما ضرور ہیں جو اپنے اقتدار کی خاطر قومی مفادات کا سودا کر سکتے ہیں نہ کسی بیرونی طاقت کا آلہ کار بننے پر آمادہ ہوں گے۔ چیئرمین نیب کے خلاف سکینڈل کے محرکات‘ مقاصد اور ذمہ داروں کا پتہ چلنا چاہیے اور ایوان وزیر اعظم سے قربت رکھنے والا شخص کیوں استعمال ہوا اس کی تحقیق ازبس ضروری ہے لیکن بظاہر یہ نشانہ خطا گیا ہے اور اب احتساب کا عمل شائد زیادہ شدت سے آگے بڑھے اور اس کی زد میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو تاہم حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک نے اگر حقیقت کا روپ دھارا اور مولانا فضل الرحمن کے منصوبے کے مطابق دینی مدارس اور مساجد کو تحریک کا گڑھ بنایا گیا تو لکھ رکھیے کہ عمران خاں کے اقتدار سے زیادہ شریف اور زرداری خاندان کو خطرات لاحق ہوں گے اور ممکن ہے کہ احتساب کا وہ بے رحم کوڑا برسے جس کی آرزو قوم گزشتہ تین دہائیوں سے کرتی چلی آ رہی ہے۔ مگر پوری نہیںہوئی کمزور یادداشت کی بنا پر قوم انڈونیشا‘ ایران‘ مصر اور نائجیریا کے حالات و واقعات بھول چکی ہے مگر یہ اسی کرہ ارض پر ظہور پذیر ہوئے۔ جنرل حمید گل مرحوم ’’نرم انقلاب‘‘ کی نوید سنایا کرتے تھے مگر ’’ سافٹ کو‘‘ جنرل پرویز مشرف کی صورت میں قوم کے آٹھ سال ضائع کر گیا۔ وہی چور لٹیرے دوبارہ شریک اقتدارہوئے جن کے احتساب کے لئے قوم نے فوجی مداخلت کی حمایت کی‘ اب یہ ’’ نرم انقلاب ‘‘تو عمران خان کی شکل میں برپا ہو چکا‘ عدالتی احتساب کے ذریعے قومی سطح پر گندگی صاف کرنے کا عمل جاری ہے جس پر اگر ہمارے سیاستدان اور دانشورراضی نہیں تو پھر یاد رکھیں رول بیک احتساب نہیں ‘کچھ اور ہوگا لیکن بھاری قیمت وصول کرکے۔مریم نواز شریف نے کیا حالات کے تیور پہچان لئے ہیں؟ اور میاں نواز شریف کابیانیہ میاں شہباز شریف سے ہم آہنگ ہے؟یہ نومبر میں متوقع تبدیلیوں کا رخ بنی گالہ سے جاتی امرا کی طرف موڑنے کی کاوش ہے یا اپوزیشن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار بے وقوف بنا کر اقتدار کی راہداریوں میں داخلے کی معصومانہ خواہش ؟اگلی چند تقریروںسے پتہ چل جائیگا۔