اسلام آباد(خبر نگار)خیبر پختونخوا میں فوج کو انتظامی اختیارات دینے کے بارے قانون کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت نے اٹارنی جنرل انور منصور کے ذریعے فوج کے زیر انتظام حراستی مراکز اور اُن میں قید افراد سے متعلق تفصیلات سربمہر لفافے میں سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے ۔عدالت نے جمع سربمہر رپورٹ رجسٹرار کو بھجوادی۔ پانچ رکنی لارجر بنچ نے فاٹا ،پاٹا اصلاحات کیس کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل نے بتایا2011میں ان ایڈ آف سول پائور آرڈننس کے تحت حراستی مراکز قائم کئے گئے ، شورش زدہ علاقوں میں امن وامان کی بحالی کے لئے نیا قانون زیر غور ہے ۔چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریما رکس دیئے کہ زیر غور کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ کا انتہائی اہم ہے ،جب سزا افسر کے بیان پر دینی ہے تو پھر ٹرائل کی کیا ضرورت رہ گئی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا دشمن کے قیدیوں کو بھی جنیوا کنوشن کے تحت بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا اور کہا اسمبلیوں کی فعالیت کے باوجود آرڈیننس کیوں لائے جاتے ہیں، اسمبلیوں کو کیوں بائی پاس کیا جاتا ہے ۔فوج کو انتظامی اختیارات دینے سے متعلق قانون پر عدالت کے اعتراضات کے جواب میں اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ 22کروڑ افراد کے اجتماعی تحفظ کے لئے چند سو فسادیوں اور انتہا پسندوں کو لگام ڈالنے کے لئے کچھ اقدامات اٹھائے گئے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دس لاکھ لوگوں کے تحفظ کیلئے ایک شخص کے بنیادی حقوق قانونی تقاضے پورے کئے بغیر سلب کئے جائیں تو ہم اس ایک آدمی کے ساتھ کھڑے ہونگے ،ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنے شہریوں کیلئے حراستی مراکز بنائے جہاں انھیں بنیادی حقوق نہیں ملتے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استفسار پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا حراستی مرکز میں قید ہونا سزا نہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا یہ دوہرا ٹرائل نہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کیا میڈیا کو حراستی مراکز تک رسائی نہیں؟اللہ کا شکر ہے ہماری نظر میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں آیا،ایک اور شق دیکھ لیں اس میں لکھا ہواہے کوئی فوجی افسر یا فوجی افسر کی طرف سے کوئی اور بیان دے تو اُس بیان کو حتمی تصور کیا جائے گا،اگر ایسا ہے تو تمام عام قیدیوں کو حراستی مراکز میں لے جاکر قید کردیں اور سزا دیدیں۔اٹارنی جنرل نے کہاحراستی مراکز کے قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں سینکڑوں میں ہے ۔چیف جسٹس نے کہا ابھی اگر میں نے اس پر کوئی بات کی تو کمنٹری شروع ہو جائے گی ،یہ حالیہ تاریخ کا سب سے اہم آئینی مقدمہ ہے ،لوگوں کی آزادی زیادہ اہم ہے ۔سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔