رحمت سید لولاکؐ پہ کامل ایماں امت سید لولاک سے خوف آتا ہے والد صاحب نے فون کر کے خاص طور پر یہ شعر سنایا تھا۔ اس روز انہوں نے عطاء الحق قاسمی صاحب کے کالم میں یہ شعر پڑھا تھا۔ ان دو مصرعوں میں آباد معنی کے ایک جہان نے انہیں سرشار کر رکھا تھا۔ میں نے بھی یہ شعر دھرایا اور دو مصرعوں کے اندر موجود فصاحت و بلاغت نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ اس وقت تک میرے علم میں نہ تھا کہ یہ شعر افتخار عارف کے قلم کا اعجاز ہے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ کوئی شعر ٹھک سے آ کر دل میں اترا اور یادداشت کا حصہ بن گیا۔خیال آفرینی کی ندرت‘ بعض اوقات تو حیرت میں ڈال دیتی ہے اور دل سوچتا رہ جاتا ہے کہ اس خیال سے مزین کبھی کوئی اور شعر نظر سے نہیں گزرا۔افتخار عارف کے ایسے بے شمار اشعار اپنے شعری حسن اور ابلاغ کی بے پناہ طاقت کے زور پر میری یادداشت کا حصہ بنے اور بہت بعد میں پتہ چلا کہ اچھا تو یہ افتخار عارف کا شعر ہے۔زمانہ طالب علمی میں بہت سے ایسے دلپذیر شعر نظر سے گزرے اور میری یادداشت کا حصہ بن گئے۔ یہ تو بہت بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ افتخار عارف صاحب کے اشعار ہیں کچھ شعر دیکھیے: ملے تو مل لئے‘ بچھڑے تو یاد بھی نہ رہے تعلقات میں ایسی روا روی بھی نہ ہو ہوا بھی ہو گئی میثاق تیرگی میں شریک کوئی چراغ نہ اب رہ گزر میں رکھا جائے ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں ترے خانہ بدوش عذاب دربدری کس کے گھر رکھا جائے تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں صرف ایک سچے شعر میں ہی اتنی زوآوری اور طاقت ہوتی ہے کہ وہ مصنوعی بیساکھیوں کے بغیر اپنے بل بوتے پر سفر کر کے‘ دلوں میں اترے اور یادداشتوں کا حصہ بن جائے۔ایک اچھا شعر شعر سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ زخم پر مرہم رکھتا ہے‘ بیمار کی مسیحائی کرتا ہے اور زندگی کے کم روشن لمحوں میں کسی دیرینہ دوست کی طرح آپ کی دلداری کرتا ہے۔میں شاید ایف ایس سی کر رہی تھی، جب میرے ہاتھ افتخار عارف کی کتاب حرف باریاب لگی۔دو دن میں مجھے واپس بھی کرنی تھی سو دودن میں پوری کتاب ڈائری میں نوٹ کر لی۔ میڈیکل میں جانے کا خواب ٹوٹا تو دل بہت شکستہ ہوا۔ ایسا لگا کہ بس دنیا ہی یہاں ختم ہو گئی ہو۔ خواب کے بکھرنے کا عمل بہت تکلیف دہ تھا۔ زندگی کا یہ پہلا دھچکا تھا کہ اچھے خواب ایسے بھی ٹوٹتے ہیں۔ان شکستہ لمحوں میں ڈائری کھولتی اور حرف باریاب سے نوٹ کی ہوئی نظم’’ابھی کچھ دن لگیں گے‘‘ بار بار پڑھتی ابھی کچھ دن لگیں گے۔دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے۔ اس نظم کا ایک مصرعہ میری مسیحائی کرتا۔پڑھائی اور پھر ملازمت کے لئے آنگن سے دشت تک کا سفر کیا تو کیا کیا زندہ مصرعے تھے۔ افتخار عارف کے جو گاہے ذہن میں گونجتے اور مسیحائی کرتے۔ پھر ملازمت کا دور نیا شہر عملی صحافت دفتر کی پالیسیاں اور ہماری سوچ کا ٹکرائو ،عملی زندگی کی تلخ حقیقتیں۔جب جب آشکار ہوتیں، افتخار عارف کے قلم سے نکلنے والے لازوال مصرعوں میں بیان کی گئیں ،تلخ سچائیاں حوصلہ دیتیں کہ زندگی اسی کا نام ہے: قلم آلودۂ نان و نمک رہتا ہے لیکن جہاں تک ہو سکے آزاد رکھنا چاہتے ہیں قفس میں آب و دانے کی فروانی بہت ہے پرندوں کو خیال بال و پر شاید نہ آئے کبھی فغاں کی طرح رائیگاں اثاثہ حرف کبھی دعا کی طرح مستجاب رکھتا ہے افتخار عارف کی شعری کائنات میں قدم رکھیں تو حیرت تھام لیتی ہے کہ زندگی کو حسین زاویے اور نظر سے اس شاعر نے دیکھا ہے اور پھر اسے اپنے اشعار میں بیان کیاہے۔اردو شاعری میں اس کی مثالیں کم کم ہیں۔ اردو شاعری میں ہمیشہ سے شاعر خود کو گلوریفائی کرنے کی روایت پر کاربند تھے، جیسے فیض نے کہا کہ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔یعنی ایسا گلوریفائی کرنا خود کہ جیسے شاعر عام انسانوں سے کسی اونچے مرتبے پر فائز ہے۔ اس کی آدرشیں اور خواہشیں اس کی ذات سے بالاتر۔ پورے سماج کی بہتری سے جڑی ہیں اور وہ ان کے لئے ہر طرح کی قربانی دے سکتا ہے۔ خود کو انسانیت کا عظیم پیکر بنا کر اپنے قاری کے سامنے پیش کرنے والے شاعر عملی زندگی میں اتنے ہی عملیت پسند اور سمجھوتے کرنے والے تھے جتنا ایک عام انسان ہو سکتا ہے۔اردو شاعری میں پہلی بار افتخار عارف نے اتنی جرات اظہار سے کام لیا کہ شاعر کے اندر سانس لیتے زندگی کی حقیقتوں سے جڑے ہوئے عام انسان کے مسائل کو شعر کا موضوع بنایا۔ شاعر بھی عام انسان ہوتا ہے۔مصلحت کوشی سمجھوتے اسے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ اور ایسے مصرعے بھی۔ کہ دل کبھی خواب کے پیچھے کبھی دنیا کی طرف۔دل اور دنیا کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا احساس افتخار عارف کی شاعری میں جا بجا ہے۔ یہ احساس صرف اسی شخص کو ہو سکتا ہے جو زینہ ذات کے راستے کا مسافر بھی ہو۔ اسی راستے پر چل کر خود شناسی کی دولت ہاتھ آتی ہے۔ خودشناسی کے یہ مضامین یہ ندرت خیال۔اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملے گی۔ یہ مضامین صرف افتخار عارف نے برتے ہیں ،اسی لئے اردو ادب میں دوسرا کوئی افتخار عارف نہیں ہے۔میں نے بڑے نامور شاعروں کو افتخار عارف سے ایسے عقیدت کا اظہار کرتے دیکھا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ایک طرف بے شمار محبتیں عقیدتیں ہیں تو پلڑے میں دوسری طرف حرف دشنام کی بھی کمی نہیں مگر صاحب نعمت صابروں کے قبیلے سے ہے۔ دعا بعداز دعا سجدہ بسجدہ‘ اشک در اشک‘ زندگی کی منزلیں طے کرتا ہے، اس توفیق دینے والے سے جڑا ہوا ہے ،جس سے وہ ہمیشہ حرف باریاب کا طالب رہا۔ دعا قبول ہوئی اور وقت نے افتخار عارف کی شاعری پر فیصلہ صادر کر دیا۔ اردو شاعری کا یہ عہد افتخار عارف سے منسوب ہے: اب اس میں کاوشیں نہ کچھ اہتمام میرا ہوائیں محفوظ کر رہی ہیں کلام میرا میں کچھ کریموں کے باب نعت سے منسلک ہوں سو خود بخود ہو رہا ہے سب انتظام میرا