سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک کی شامت آگئی اور امریکہ ڈنڈا لے کر ان کے پیچھے پڑ گیا کہ آپ اپنا نظام چلانے کا حق نہیں رکھتے۔ آپ کو کیپٹلزم مکمل طور پر اختیار کرکے ملک کو جدید جمہوری تقاضوں کے تحت چلانا ہوگا اور یہ تقاضے سیکولرزم کے تحت لبرل معاشرت کے مطالبات کے ساتھ سامنے لائے گئے۔ یہ غلامی کی سب سے بدتر شکل ہے جو فوجی قبضے کے بجائے یو این اور مالیاتی اداروں کی مدد سے ممالک پر مسلط کی جاتی ہے جس سے شہریوں کو یہ احساس تک نہیں رہتا کہ وہ غلامی کی ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس کے ضابطے ان کے منتخب کردہ نہیں بلکہ مسلط کردہ ہیں۔ اس مقصد کے لئے این جی او مافیا کے ذریعے "پرسپشن منیجمنٹ" پروگرام شروع کئے گئے، جس میں بھاری فنڈنگ کرکے ان ممالک کے اندر سے ہی سیکولرزم اور لبرلزم کے حق میں آوازیں بلند کروائی جانے لگیں۔ پرسیپشن منیجمنٹ کا فنڈ کھانے والوں کو اہداف کے حصول کے لئے دو رخ پر کام کرنے کی ہدایات دی گئیں۔ پہلا رخ یہ کہ اسلامی تاریخ کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے اس پر نوجوان نسل کو شرمسار کیا جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ ان کی تاریخ بہت ہی شرمناک ہے۔ اس مقصد کے لئے اسلامی تاریخ کے معروف حکمرانوں کے کردار کے منفی پہلوؤں کو خوب اچھالا جائے اور غزالیؒ سے لے کر اقبالؒ تک ہر مسلم مفکر کو متنازع بنایا جائے۔ آپ اندازہ لگایئے کہ اس حوالے سے ان کا پروپیگنڈہ اس حد تک مغرب سے ماخوذ ہے کہ جب مسلم حکمرانوں کے عیوب گنوائے جاتے ہیں تو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی تعریف کردی جاتی ہے کہ وہ تو بہت زبردست آدمی تھا۔ جانتے ہیں یہ تعریف کیوں کی جاتی ہے ؟ اس لئے کہ خود مغرب کی پچھلی آٹھ سو سال کی تاریخ ان کی تعریفوں سے بھری پڑی ہے اور یہ تعریف صرف اس ایک واقعے کے سبب ہے کہ جب صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا تو وہاں موجود بوڑھے سے لے کر بچے تک تمام کے تمام مسلمانوں کو ذبح کردیا تھا اور کسی ایک بھی مسلمان کو زندہ نہ چھوڑا گیا تھا۔ اس ہولناک پس منظر میں جب 80 سال بعد صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس فتح کیا تو صلیبیوں کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ ایوبی انہیں بھی اسی طرح ذبح کرکے انتقام لے گا لیکن ایوبی نے اعلان کیا کہ نہ کسی غیرمسلم پر آنچ آنے دی جائے گی اور نہ ہی ان کا حق ملکیت اور کار و بار چھینا جائے گا۔ بیت المقدس کے ہر غیر مسلم شہری کے بھی وہی حقوق ہونگے جو مسلمانوں کے ہیں۔ بس ان غیر ملکیوں کو یہاں سے نکلنا ہوگا جو یورپ سے آ کر یہاں لڑ رہے تھے۔ اور پھر حسب وعدہ ایسا ہی کیا گیا۔ یہ وہ واقعہ ہے جس پر عیسائیت آج بھی صلاح الدین ایوبی کی تعریفوں کے پل باندھتی نہیں تھکتی اور یہ تعریفیں بی بی سی تک اپنی ڈاکومنٹری میں کر چکا ہے ورنہ جو "عیوب" گنوا کر لبرلز دیگر مسلم سلاطین پر کیچڑ اچھالتے ہیں وہ تمام کے تمام خود صلاح الدین ایوبی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ دوسرا رخ یہ دیا گیا کہ لبرلزم کے فوائد گنوائے جائیں۔ "فوائد" کے باب میں سب سے زیادہ پروپیگنڈہ "آزادی" کا کیا جاتا ہے۔ اور ان کے ہاں آزادی کے معانی یہ ہیں کہ بولنے کی اتنی آزادی ہو کہ انسان اپنے بول کو بھونک میں بدل کر کسی پر بھی بھونک سکے۔ دیکھنے کی اتنی آزادی ہو کہ انسان دوسرے کی بہن اور بیٹی کو نظر بھر کر صرف دیکھ ہی نہ سکے بلکہ آنکھ مار کر پٹا بھی سکے۔ پینے کی اتنی آزادی ہو کہ انسان وہ بھی بے روک ٹوک پی سکے جس کے پینے سے منہ اور خیالات دونوں سے بدبو آنے لگتی ہے مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رات آٹھ بجے کے بعد والا فیس بک کمنٹ ستارہ امتیاز کو بھی رسوا کرکے رکھ دیتا ہے۔ جنسیت کی اتنی آزادی ہو کہ باپ بیٹی سے یہ پوچھنے کا حق نہ رکھ سکے کہ "بیٹی رات تین بجے کہاں سے آ رہی ہو ؟ آپ لبرلز رائٹرز کا تمام کا تمام پروپیگنڈہ اٹھا کر دیکھ لیجئے وہ غربت سے آزادی، بھوک سے آزادی، بیماریوں سے آزادی، جہالت سے آزادی، مہنگائی سے آزادی، عدم مساوات سے آزادی، سرمایہ دار سے آزادی اور خود کشیوں سے آزادی کی بات ہی نہیں کرتے کیونکہ یہ تمام کی تمام آزادیاں وہ کیپٹلزم دیتا نہیں بلکہ چھینتا ہے جس کا خوشنما چہرہ لبرلزم کہلاتا ہے جبکہ آزادی کا حقیقی تصور وہ ہے جو ناف سے اوپر واقع دل و دماغ میں پائی جاتی ہو۔ اسے علمی دنیا میں "حریت فکر" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور جب حریت فکر میسر ہو تو پھر انسان کو جکڑی ہوئی غلامی کی تمام زنجیریں ٹوٹ کر قدموں میں آگرتی ہیں اور قومیں ترقی کا سفر شروع کردیتی ہیں۔ دیسی لبرلز عیاشی کے مظاہر کو "آزادی" تو باور کراتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے اربوں ڈالرز کے قرضے میں ڈوبی قوم عیاشی کر کیسے سکتی ہے ؟