ملک میں گزشتہ دنوں کے دوران کم از کم دو ایسے واقعات پیش آئے ،جنہوں نے سماجی سطح پر خوف کی فضا کو جنم دیا ۔پہلا واقعہ کراچی میں پیش آیا جس میں پولیس کے مطابق ایک پانچ برس کی بچی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ،اس کے بعد اُس معصوم کو قتل کر دیا گیا۔دوسرا واقعہ لاہور میں موٹروے کے قریب ایک خاتون کے ساتھ پیش آیا۔ مَیں یہاں دوویڈیوز کو حوالہ بنا کر بات آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں۔پہلی ویڈیو سائیکلسٹ ثمرخان کی ہے۔وہ اپنے ساتھ پیش آئے ایک ناخوشگوار واقعہ کا ذکر کرتی ہے۔اُس کے مطابق’’مَیں اسلام آباد میں سائیکلنگ کر رہی تھی،فیض آباد کے قریب ایک بندہ جو شاید دفتر سے آرہا تھا،نے مجھے پیچھے سے چھوا اور پھر بھاگ کھڑا ہوا۔مَیں نے اس کو روکنے اور پیچھا کرنے کی سعی کی،لیکن کامیاب نہ ہوسکی،وہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت آگے نکل گیا،اُس نے میرے ساتھ جو غیر اخلاقی حرکت کی ،اُس کو چند لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،مگر کسی نے میری مدد نہ کی اور میرے پاس رُکنا تک مناسب نہ سمجھا‘‘ دوسری ویڈیو کے مطابق:ایک شخص کی گاڑی سے موٹر سائیکل ٹکراجاتی ہے۔موٹر سائیکل سوار نیچے گر جاتا ہے ۔گاڑی کچھ آگے جاکر ایک طرف رُک جاتی ہے اوراُس میں سوار شخص اُتر کربھاگتا ہوا، حادثہ کی جانب آتا ہے ،اُس کو گاڑی کھڑی کرنے اور وہاں پہنچنے تک ایک دومنٹ لگ جاتے ہیں،اسی اثناء میں حادثہ کی جگہ چند لوگ جمع ہو چکے ہوتے ہیں ،جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو ایک شخص زخمی ہونے والے کو پانی پلارہاہوتا ہے۔زخمی شخص ،اُس کو دیکھ کر کہتا ہے کہ ’’آپ کا قصور نہیں تھا،آپ جائیں ،مجھے زیادہ چوٹیں نہیں آئیں، خدا نے بچالیاہے‘‘لیکن پانی پلانے والا شخص چیخ اُٹھتا ہے’’تم لوگ دیکھ کر گاڑی نہیں چلاتے ،اندھے ہو،اگر یہ مر جاتا ؟‘‘جو شخص گاڑی سے اُتر کر آیا تھا،وہ کہتا ہے’’مَیں نے موٹر سائیکل کو ٹکر نہیں ماری،نہ میرا قصور ہے ،مَیں تو گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے ،مدد کے لیے آیا ہوں‘‘ مذکورہ بالا واقعات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ یہاں کوئی دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ،اگر واقعہ کی جگہ کوئی رُک بھی جائے تو وہ مدد کرنے کے بجائے ، معاملے کو مزید المناک بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟اس سوال کا جواب کئی سماجی پہلو رکھتا ہے ،ایک پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اُس وقت واقعہ کی’’ حساسیت‘‘کاادراک نہیں ہوپاتا۔موٹروے واقعہ کے تناظر میں اگر دیکھیں تو ہر سطح پر واقعہ کی حساسیت کا خیال نہیںرکھا گیا۔ اس واقعہ کا ریاست و سماج نے جو ردِ عمل دیا،اُس میں حساسیت کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔حساسیت کو نظر انداز کرنے کی پہلی غلطی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی جانب سے کی گئی۔یہ معمولی غلطی نہ تھی،یہی وجہ ہے کہ سماجی سطح پر ہر طبقے کی جانب سے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا،یہ الگ معاملہ کہ غم و غصہ کرنے والے معاملے کی حساسیت کا ادراک کس حد تک رکھتے ہیں؟جب پولیس آفیسر عمر شیخ پر تنقید کا دائرہ وسیع ہوااور اُن کی قوتِ برداشت جواب دے گئی تو اُنہوں نے اپنے بیان پر معذرت کا اظہار کیا۔پولیس آفیسر پر تنقید کرنے والوں میں ایسے بے شمار لوگ تھے ،جو بیان کی مذمت کے بجائے اُن کی ذات کو ہدف بنارہے تھے،یوںیہ لوگ دانستہ واقعہ کی حساسیت سے منہ موڑتے پائے گئے۔عمر شیخ کے بعد اس واقعہ کی حساسیت کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں نظر اندازکیا۔ کہا گیا کہ مجرموں کا سراغ لگالیا گیا ہے ،لیکن جو اُن کو گرفتار کروائے گا،وہ پچیس لاکھ انعام کا حق دار ٹھہرے گا۔بعدازاں حکومتی وزراء اور بعض سینئرز پولیس آفسیرز نے مختلف ٹی وی ٹاک شوز میںمیں واقعہ کی حساسیت کو مجروح کیا۔معاملہ حکومتی وزرا ء تک موقوف نہ رہا،اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ سیاست دانوں نے بھی حساسیت کو لتاڑ کر رکھ دیا۔اس ضمن میں میاں شہباز شریف سبقت لے گئے۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران اُس موٹروے کی تعمیر کا کریڈٹ لیا ،جس پر مذکورہ حساس ترین واقعہ رُونما ہوا تھا۔چونکہ ریاست و سماج نے اس دردناک واقعہ کی حساسیت کو سمجھنے میں غلطی کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ واقعہ رفتہ رفتہ پس منظر میں جاتا گیا اور آپس کی لڑائیاں مرکزی صورت اختیار کرتی گئیں۔یہی وجہ ہے کہ واقعہ کو ظاہری سطح پر تو سلجھانے کی کوشش کی گئی مگر اس کی جڑوں تک پہنچ کر سلجھانے کی جانب کسی کا دھیان نہیں گیا ۔ دھیان میں رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا ،جس کی حساسیت کو ریاست و سماج نے یکسرنظر اندازکیا۔ہمیشہ ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ہر واقعہ ظاہری سطح پر اپنے انجام کو ضرور پہنچایا جاتا ہے ،مگر تھوڑے عرصہ بعد ،وہی واقعہ کسی اور شکل میں نمودار ہو کر ہیجان میں ڈال دیتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے زینب کیس کو جس طرح سلجھایا تھا ،وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔اب پی ٹی آئی کی حکومت نے موٹروے زیادتی کیس کو جس انداز سے سلجھانے کی کوشش کی ہے ،یہ انداز بھی ہمارے سامنے ہے۔شہباز شریف کی پریس کانفرنسیں اور عثمان بزدار کی پریس کانفرنسیں ،چہروں کی تبدیلی کے سوا یکساں ٹھہرتی ہیں۔محض دعوے،یا پھرمجرم کا سراغ لگانے والوں کو انعامات دینے کا اعلان۔اگر مقامی لوگوں نے مجرم کا سراغ لگاناہے تو پھر پولیس کی ذمہ داری کیا رہتی ہے؟پولیس کی ذمہ داری سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے شاید بہت وضاحت سے بتادی تھی اور پولیس کی کارکردگی آئی جی پولیس نے یہ کہہ کر بتائی کہ جب پولیس ملزم عابد کے گھر جو کہ کھیتوں میں گھِرا ہوا تھا،پہنچی تو وہ اپنی بچی کو چھوڑ کر بیوی سمیت کھیتوں میں غائب ہوگیا۔پولیس کے جوانوں نے بچی کو حراست میں لے لیا۔