مغرب اپنی ترقی کے خمارمیں اس حد تک آگے نکل گیا، کہ اب اُس نے اپنے شہریوں کی شخصی دستاویزات سے ولدیت کا خانہ ہی ختم کردیا ہے ،جوکہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ نہ صرف ’’خاندانی نظام‘‘ کی اہمیت سے دستکش ہوگئے ہیں،بلکہ انہوں نے نسلی خصائص اور خوبیوں کا بھی سرے سے انکار کردیا ہے ۔بلا شبہ ہمارے دین میں قربِ الٰہی کامعیار تقویٰ ہی ہے ، مگر اس کے ساتھ خاندانی شرف اور نسبی فضیلت کوبھی ایک نعمتِ عظمیٰ سمجھا گیا ۔کسی صاحبِ نسب اور اعلیٰ خاندانی نسبتوں کے حامل شخص کے متعلق عام طور پر ،ہم یہ کہہ دیتے ہیںکہ فلاں شخص بڑا ’’حسبی ،نسبی ‘‘ ہے ،جس کا مفہوم اس کی نسبی عظمتوں کا اظہار ہوتا ہے ،حالانکہ ’’حسب ‘‘ کالفظ اعلیٰ انسانی صفات کے لیے استعمال ہوتا ہے ،مثلاً علم وحکمت ،زُہد وفضل ،تقویٰ و طہارت وغیرہ ،جبکہ لفظ ’’نسب ‘‘کا تعلق ’’خاندانی نسبت‘‘ اور خونی انتساب سے ہے ،یعنی کوئی شخص اولاد ہونے کے ناطے کس دادا ، پر دادا سے نسبت کا حامل ہے ۔ اسلامی معاشرت میں اگرچہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کسی کالے پر گورے کو اور عربی کو عجمی پرکوئی فضلیت نہیں ، لیکن انسانی سوسائٹی میں خاندان اور قبائل کی انسانوں تقسیم کو ’’وجۂ تعارف‘‘ اورپہچان بیان کرتے ہوئے قرآن نے کہا کہ ـ:’’یٰآ یُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدِاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔‘‘یعنی :’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں بڑی قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ (اس سے ) تم ایک دوسرے کوپہچا ن سکو۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میںسے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔‘‘ معاشرتی زندگی میں کسی فرد کا ’’صاحبِ حسب‘‘ یعنی ذاتی اوصاف وکمالات کا حامل ہونا، جتنا اہم ہے ،اس کا ’’صاحبِ نسب‘‘ ہونا بھی اتنا ہی فضلیت اور عظمت کاحامل ہے ، یعنی اس کا اپنے آبائو اجداد اور حقیقی خاندانی مورث کے ساتھ ،سلسلۂ نسب صحیح طور پر انتساب رکھتا ہو ،اگرچہ ہمارے ہاں ،بعض اوقات’’ ذاتی کمالات اور شخصی اوصاف ‘‘ہی کو باعث اعزاز جانا جاتا ہے ،اور نسبی عزو شرف اور پاکیزگی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،حالانکہ دیگر مذاہب میں بالعموم اور اسلام میں بالخصوص ’’شرفِ نسب ‘‘کو بھی لائقِ اعزاز اور قابلِ احترام جانا گیا ہے ،اقوامِ عالم ہر دور میں پاسِ نسب کرتی آئی ہے اور خود قرآن و احادیث سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے ،جیسا کہ سورئہ کہف کی اٹھائیسویں آیت میں حضرت خضرؑ اور حضرت موسیٰؑ کی طرف سے دو یتیم بچوں کی بلا اُجرت دیوار کی تعمیر ،جس کے نیچے ان بچوں کا موروثی سرمایہ دفن تھا ،جن کے متعلق قرآن نے کہاکہ ’’ وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحاً‘‘یعنی :’’ ان دو بچوں کاباپ نیک انسان تھا ۔صاحب ’’روح المعانی‘‘ نے لکھا کہ وہ نیک آدمی سات یا دس پشت پہلے ان دو بچوں کا جدِّ اعلیٰ تھا۔گویا نیک والدین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کے نیک اعمال کا فائدہ ان کی اولاد کو پہنچتاہے ،جیسا کہ ان دو بچوں کو ان کے اجداد کی شرافت اور نیکی کا فائدہ پہنچا ،مزیدیہ کہ علامہ آلوسی ؑ نے حضرت ابن عباسؓ کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ :’’اللہ تعالیٰ مومن کی اولاد کو (ان کے نیک والدین کے ہمراہ ) بہشت میں اسی مقام ومرتبہ اور درجہ میں رکھے گا ،تاکہ اس مومن کی آنکھیں اپنی اولاد کو دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی ہوتی رہیں ،اس طرح یہاںبھی نسب کوملحوظ رکھتے ہوئے ،نیک اور مومن متقی کی اولادکو جنت میںخاص مقام سے سرفراز کیا گیا ، جوکہ یقینا ’’وَا تَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتَھُمْ بِا یْمَانٍ‘‘ کی شرط کے تحت، ایسی اولاد ہی کو یہ شرف میسر آئے گا، جنہوںنے ایمان میں اپنے والدین کی پیروی کی ،بصورتِ دیگر حضرت نوحؑ کے حقیقی بیٹے والا سلوک بھی قرآن میں موجود ہے ۔ گویانیک والدین کی اولاد اگر صاحب زُہد وتقویٰ ہوتو پھر ’’سونے پہ سہاگہ‘‘ ہے ۔ بصورتِ دیگر اگر اکابرینِ امت اور صالحین کی اولادیں خود کودینی شعار سے دور اور اعمالِ صالحہ سے بے نیاز سمجھنے لگ جائیں ،جیسا کہ آج کل اسکی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں -- دین کے نام پلے اوربڑھے ہوئے ،دین ہی سے بیزار نظر آتے ہیں ،بہر حال--- جزیر ئہ نما عرب ---اپنی جغرافیائی صورتحال کے سبب تین اطراف سے پانی میں گھرا ہوا اور بالعموم دنیا سے قدرے الگ تھلگ تھا، جس کی کی زندگی سست روی کا شکار تھی، جس کے باعث ان کی زبان اورنسب عام دنیاوی تغیر وتبدل سے محفوظ تھے ۔ وہ خاندان کو اعلیٰ نسلی رشتوں سے استوار کرتے ،نئی رشتہ داریاں ایسے گھروں میں کرتے ،جن کا دامنِ عصمت وعفت ---شفاف اور اُجلا ہوا ہو، وہ ظاہری حُسن وجمال میں اگر کسی درجے کم تر بھی ہو ، لیکن طہارت وپاکیزگی کے حوالے سے اس کے کردار پرکوئی دھبہ نہ ہو، اس لیے کہ وہ خاتون جس نے اس کی اولاد کی ماںبننا ہے ،جس کی گود میں آنے والی نسل کی افزائش ہونی ہے ،اس کا معیار اعلیٰ ترین ہونا چاہیے ۔اکیم بن صیف ،جو عہدِ جاہلیت کے حکماء اور دانشوروں میں ممتاز مقام کا حامل تھا ، جس کی دانائی اور دانشمندی سے متاثر ہو کر کسری نوشیرواں نے یہ کہا تھا کہ :اگر اہل عرب میں اس کے علاوہ کوئی اور مردِ دانا نہ بھی ہوتا ،توعربوں کے لیے یہ اکیلا بھی کافی تھا۔‘‘ اس نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہاتھا :’’ اے میرے بیٹوں ! عورتوں کاظاہری حُسن وجمال تمہیں نسب کی پاکیزگی سے غافل نہ کردے ، کیونکہ کمینہ صفت اور بد کردار بیویاں خاندانی شرف کو خاک میں ملا دیتی ہیں ۔‘‘ باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰ ؓکے شاگر د ابو الاسود الدوئلی نے اپنے بیٹوں کوکہا کہ :’’میں نے تم پر بعض احسان تمہارے پیدا ہونے کے بعد کیے ،جب تم دنیا میں آگئے اور بعض احسان ایسے ہیں جو تمہارے پیداہونے سے بھی پہلے تم پر کئے۔‘‘بیٹوںنے پوچھا کہ :’’ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے کون سے احسان ہیں ---؟‘‘ اس نے کہا کہ ـ:’’ میں نے تمہارے لیے ایسی مائیں چُنی جن کی وجہ سے سوسائٹی میں تمہیں کوئی گالی نہ دے سکے ۔‘‘قریشی ،ہاشمی اوربالخصوص سادات کے نسب ناموں کی تدوین اور شجروں کی تحفیظ قرنِ اوّل ہی سے جاری رہی ،برصغیر میں نقوی اور بخاری سادات کا اولین مرکز ’’اوچ شریف‘‘ سیّد جلال الدین سرخ پوش بخاری ؒکے قدومِ میمنت کے سبب ، تیر ہویں صدی عیسوی میں قائم ہوا ،آپ نے اپنی خانقاہ میں نقوی وبخاری سادات کے شجرو ں اور نسب ناموں کومحفوظ رکھنے کے لیے ایک الگ شعبہ قائم کیا، جس کی ذمہ داری ،آپ کے متعلقین میں سے’’ خلیفہ خاندان‘‘ کو تفویض شدہ ہے ، جوگذشتہ کئی صدیوں سے اہم ذمہ داری کونبھا رہے ہیں۔ اس وقت اس ذمہ داری پر خلیفہ شمیم ، دربا ر عالیہ اوچ شریف میں اس کام پر مامور ہیں جو ساداتِ بخاری میںپیدا ہونے والے بچوں کے نام اپنے ان قدیمی نسب ناموں میںدرج کرنے کافریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔بحمد اللہ میرا خاندان جو 23واسطوں سے سیّد جلال الدین سرخ بخاریؒ اور40واسطوں سے سر چشمہ حکمت و ولا یت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے جا ملتاہے ،کے قدیم شجر ے او رنسب نامے اوچ شریف کے تاریخی ریکارڈ میں محفوظ ہیں ۔