مہنگائی اور مزید مہنگائی سے ادھ موئے ہوئے۔ کم و بیش ساٹھ‘ ستر فیصد پاکستانیوں کے لئے عید جیسا خوشی کا موقع بھی اپنے ساتھ حسرتیں مشکلات اور مسائل لے کر آتا ہے۔ عیدالفطر میں صرف دو دن باقی ہیں اور خوشحال گھرانوں میں عید کی تیاریاں عروج پر ہیں عید تو غریب شہر بھی مناتا ہے اس کے بچے بھی نئے کپڑے اور نئے جوتوں کی فرمائش کرتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ غریب کے بچے تو پورے سال میں ایک بار عید کے موقع پر ہی نئے کپڑے پہننا چاہتے ہیں ورنہ سارا سال تو اترن پہن کر ہی غریب کا گزارا ہو جاتا ہے۔ ہمارا کمرشل زدہ، بے حس، برین لیسbrainless میڈیا آج کل دن رات عید کی تیاریوں پر بنائے ہوئے خصوصی پیکیج چلا رہا ہے۔ پس منظر میں بجتی تیز موسیقی کی ڈھماڈھم سمع خراشی کرتی ہے تو پیش منظر بھی بھلا نہیں لگتا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ساٹھ ستر فیصد لوگ صرف پیٹ کا ایندھن بھرنے کی تگ و دو میں زندگی گزارتے ہوں، وہاں بازاروں میں خریداروں کا رش عید کی تیاریوں پر بنے رنگا رنگ پیکیج برینڈز کے گلیمرس out letsآئوٹ لیٹس پر خریداری کرتے ہوئے چند فیصد پاکستانیوں کی سرگرمیاں دکھانا کہاں کا انصاف ہے؟ ٹی وی تو گھر گھر میں دیکھا جاتا ہے ایک ایک کمرے کے خستہ حال مکانوں میں بھی ٹی وی دیکھا جا رہا ہے ان گھروں میں بستے ہوئے غریبوں پر خوشحال پاکستانیوں کی اس عید کی تیاریوں کے پیکج کیا اثر ڈالتے ہیں۔ ہمارے دین میں تو حکم ہے کہ پھل کھا کر اس کے چھلکے ایسے باہر نہ پھینکو کہ غریب ہمسائے کا دل برا ہو(مفہوم) اور گوشت پکائو تو اس کا شوربہ پتلا کر لو تاکہ غریب ہمسائے کے گھر بھی بھیج سکو۔ اس ساری صورت حال کے تناظر میں ہم بطور فرد کیا کر سکتے ہیں اس پر سوچتے ہیں ہم اس بے لگام میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ نہ ہی اس بے لگام مہنگائی اور روز بڑھتی ہوئی غربت کو روکنا اور کم کرنا ہمارے بس میں ہے۔ لیکن ہمیں وہ تو کرنا چاہیے جو ہمارے بس میں ہے اپنی عید کی تیاریوں میں کسی نہ کسی غریب گھر کو بھی شامل کر لیں جتنی آپ کی بساط ہو جتنی آپ کی توفیق ہو۔ ہم لوگ برینڈز سے ہزاروں روپے کے کپڑے خریدتے ہیں۔ عیدوں پر تین تین چار چار جوڑے بنوائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو گھروں میں کراکری کا نیا سامان آتا ہے۔ فرنیچر کی پوشش اور پردے تک بدلے جاتے ہیں۔ اگرہم کوشش کریں تو انہی پیسوں میں سے کچھ پیسے کسی سفید پوش غریب گھر کے بچوں کی عید کی تیاری پر خرچ کر سکتے ہیں۔ تین کی بجائے دو جوڑے بنا لیں ایک جوڑے کے پیسوں سے کسی غریب بچے کے چہرے پر خوشی لائی جا سکتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ غربت بہت زیادہ ہے۔ ضرورت مندوں کی قطاریں بہت لمبی ہیں ہم سب کی مدد نہیں کر سکتے لیکن بساط بھر کسی ایک دو کی مدد تو کر سکتے ہیں نا! تو آگے بڑھیں اور اپنی عید کی خوشی میں خوشیوں کے چند دیپ کسی کی غربت بھری حسرتوں بھری تاریکی میں جلا دیں۔ یقین کریں ایسی روحانی خوشی ملے گی کہ آپ سوچیں گے آپ کی عید روشن ہو گئی۔ آپ کی عبادت اور روزے قبول ہو گئے۔ آغاز میں میں نے الیکٹرانک میڈیا کی بے حسی کا ذکر کیا کہ کس طرح عید کے موقع پر گلیمر خریداری دھڑا دھڑ شاپنگ اور عید کی تیاریوں کے پیکجز بنا کر بار بار چلائے جاتے ہیں۔ یہ ان گھروں میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔ جہاں سال بھر کی ریزہ ریزہ آمدنی کو جوڑ کر ماں تخمینہ لگا رہی ہوتی ہے کہ گڈو کی شلوار قمیض بنائوں کہ منی کا نیا فراک۔ بازار جاتے ہوئے ڈرتی ہے کہ اس کے بٹوے میں موجود ریزہ ریزہ کر کے جوڑے ہوئے پیسے بازار میں آگ اگلتی مہنگائی کے سامنے راکھ ہو جائیں تو وہ گڈو اور منی کو کیا جواب دے گی۔ بازار کی چکا چوند اشیاء سے لبریز بھری ہوئی دکانوں کے رنگا رنگ نظروں میں گڈو اور منی کی ماں کی بے بسی اور آنکھوں میں حسرتوں کا جہان کسی کو نہ دکھائی دیتاہے۔ سنائی ! ایسے میں ماں اگر خالی ہاتھ واپس چلی جائے تو پھر گڈو اور منی کے ننھے دل پر کیا گزرتی ہے، ایسے میں عید کی چھٹیوں کے بعد آنے والے اخبار میں ہم اکثر ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں شہر میں ایک بچے نے عید کے نئے کپڑے نہ ملنے پر خودکشی کر لی۔ دل دہل جاتاہے۔ ایک رنج اتر آتا ہے دل میں کہ کاش ہم اس بچے کو عید کے کپڑے لے کر دے سکتے۔ میڈیا کا کردار اس حوالے سے منفی ہے۔ بجائے اس کے کہ ایسے پیکجز بنا کر چلائیں کہ لوگ سادگی سے عید منائیں، لوگوں کو تحریک دیں کہ غریبوں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کریں۔ مگر میڈیا ایسے پیکجز دکھا کر الٹا غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ احسان دانش نے یہ مصرعہ آج کے میڈیا کے بارے میں بھی کہا تھا۔ وہ زر کے بل پر اڑاتے ہیں مفلوں کا مذاق۔ میڈیا اس کنزیومر سسٹم کا ایک حصہ ہے۔ یہ سارا کا سارا نظام بھی غربت کا مذاق اڑانے والا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے ایک بڑے اخبار میں بطور سب ایڈیٹر میگزین صحافتی زندگی کا آغاز کیا تھا تو مجھے آغاز ہی میں بچوں کے صفحہ کا انچارج بنا دیا گیا۔ عید آئی تو اس اخبار کی روایت کے مطابق عید پر ہمیں رنگین ایڈیشن کے لئے اسی قسم کے تصویری فیچر بنانے تھے نئے کپڑے‘ عید ‘ خریداری پیارے پیارے خوشحال گھروں کے بچوں کی تصاویر۔وغیرہ ایک لمحے کو خیال آیا کہ میرے اخبار کے قاری زیادہ تر بچے وہی ہیں جو سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ روزانہ کے حساب سے آنے والی بچوں کی ڈاک سے ہی میں اندازہ لگا چکی تھی یہ قاری بچے کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت میں نے اپنے ایڈیٹر میگزین یہ ڈسکس کیا اور کہا کہ میں امیر بچوں کی عید سرگرمیوں پر تصویری فیچر بنا کر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنے قاری بچوں کو پریشان نہیں کر سکتی۔ چونکہ گلیمر رنگین صفحات کی مجبوری ہے سو ہم نے ایک ایسے آئیڈیے پر کام کیا کہ امیر بچے گفٹ پیکٹ بنا کر غریبوں بچوں میں تقسیم کر رہے ہیں تاکہ انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کر سکیں اس فیچر کا نام تھا دیکھو خوشیاں ایسے بانٹو سب کا حصہ ایک سا ہو‘پھر ہر برس اسی طرح کے آئیڈیے کو دھرایا گیا۔ گفٹ کے لئے ہم مختلف اداروں سے سپانسر شپ لیتے اور پھر فیچر کے ساتھ کرٹسی میں ان کا نام چھاپتے یوں بچوں میں اور بڑوں میں بھی ایک مثبت تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی۔ الحمد للہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی ہمیشہ اس بات کو اپنی ترجیحات میں رکھا کہ خوشیوں کا کچھ حصہ ضرور کچھ ضرورت مندوں کی جیب میں ڈالنا ہے آپ بھی اپنے اردگرد حقیقی مستحق اور ضرورت مند کو تلاش کریں اور ان کی خالی جیب میں جہاں حسرتیں پڑی ہیں وہاں عیدی کی صورت میں خوشی کے کچھ سکے رکھ دیں!!