مجتبیٰ حسین ۱۵ جولائی ۱۹۳۶ء کو چنچولی ضلع گلبرگہ، ، ریاست کرناٹک، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ ابراہیم جلیس کے چھوٹے بھائی تھے۔ انھوں نے ۱۹۵۶ء میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کے آرٹس کالج سے بی اے کیا۔۱۹۶۲ء میں روزنامہ سیاست کے معروف کالم نگار شاہد صدیقی کے اچانک انتقال کے بعد ’کوہ پیما‘ کے فرضی نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد اپنے اصلی نام اور ’’میرا کالم‘‘ کے مستقل عنوان سے لکھنے لگے۔ ۱۹۷۲ء میں حیدرآباد سے دہلی منتقل ہو گئے، جہاں وہ ایک سرکاری ادارے سے بھی وابستہ رہے۔ بھارت کا شاید ہی کوئی ایوارڈ ہو جو انھیں نہ ملا ہو اور بھارت کا شاید ہی کوئی ادیب ہو جس کا انھوں نے خاکہ نہ لکھا ہو اور دنیا کا شاید ہی کوئی قابلِ ذکر ملک ہو جو انھوں نے نہ گھوما ہو۔ ۱۹۸۸ئء میں پاکستان تشریف لائے تو محترمہ رعنا فاروقی نے ان کی اجازت سے ان کی نو کتابوں سے ایک جامع انتخاب ’’قطع کلام‘‘ کے عنوان سے مکتبۂ ہم زبان، کراچی سے ۱۹۸۹ء میں شائع کیا۔ مجتبیٰ حسین کی دو درجن کے قریب کتب شایع ہوئیں، جن میں تکلف بر طرف (۱۹۶۸ئ) قطع کلام (۱۹۶۹ئ) قصہ مختصر (۱۹۷۲ئ) بہرحال (۱۹۷۴ئ) آدمی نامہ (۱۹۸۱ئ) بالآخر (۱۹۸۲ئ) تکلف بر طرف (۱۹۸۳ئ) جاپان چلو، جاپان چلو (۱۹۸۳ئ) ۱لغرض (۱۹۸۷ئ) سو ہے وہ بھی آدمی (۱۹۸۷ئ) چہرہ در چہرہ (۱۹۹۳ئ) ہوئے ہم دوست جس کے (۱۹۹۹ئ) میرا کالم (۱۹۹۹ئ) کالم برداشتہ (۲۰۰۷ئ)نمایاں ہیں۔ خاکہ، سفرنامہ اور کالم ان دلچسپی کے خاص میدان تھے۔ بھارت میں پچپن برس سے اردو مزاح کو فروغ دینے والے ماہنامہ ’شگوفہ‘ حیدرآباد نے ۱۹۸۷ئ، ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء میں مجتبیٰ حسین کے خصوصی نمبر شائع کیے، ۲۰۱۵ء میں ’چہار سُو‘ ،راولپنڈی کا مجتبیٰ حسین نمبر بھی خاصے کی چیز ہے۔ ۲۰۰۵ء میں دارالنوادر، لاہور کے کبیرالدین رازی نے دو جلدوں پر مشتمل ایک انتخاب ’’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں‘‘ بھی شائع کیا۔ علاوہ ازیں ان کے فکر و فن کے حوالے سے بھی ’مجتبیٰ حسین کا فن‘ (۱۹۸۷ئ) مجتبیٰ حسین اور فنِ مزاح نگاری (۲۰۰۳ئ)مجتبیٰ حسین: فن اور شخصیت (۲۰۰۴ئ)وغیرہ جیسی کئی کتب لکھی گئیں۔ مؤخرالذکر کتاب انھوں نے جناب عطاالحق قاسمی کی وساطت سے راقم کو ارسال کی۔ چند سال قبل ان کا فون آیا تو فرمایا: ’بڑی مشکل سے تمھارا نمبر ایک تقریب میں محمود شام سے حاصل کیا، مَیں تمھاری کتابیں قلمی دشمنی، ذاتیات اور اُردو نثر میں طنزو مزاح (میرا پی ایچ۔ڈی کا مقالہ، جو پاکستان اور بھارت دونوں جگہ سے نہایت اہتمام سے شائع ہوا اور اس وقت سات یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے) پڑھ چکا، تمھارے مزاح اور مزاح پر تنقید دونوں کا بہت قائل ہوں۔ پھر مجھ سے فرمائش کر کے کچھ تازہ چیزیں اور تصویریں منگوائیں اور بڑی محبت سے اگست ۲۰۱۴ء کے ’شگوفہ‘ میں ایک گوشہ میرے نام کیا، یہ ان کا بڑا پن تھا۔ مجتبیٰ حسین نے اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز اگرچہ کالم سے کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے قلم سے تقریباً ہر صنف کی کونپلیں پھوٹ نکلیں۔ وہ بلا شبہ ہندوستان کے مزاح کا حرفِ آخر ہیں، وہاں نہ صرف ان کا موازنہ مشتاق احمد یوسفی سے کیا جاتا ہے بلکہ انھیں ’قہقہوں کا سوداگر، محبتوں کا سٹاک ایکسچینج، اُردو ادب کا سپر مَین اور آفتابِ مزاح جیسے القاب سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔ بھارت کے ادبی حلقوں میں کوئی تقریب ان کے خاکے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔ خود فرماتے ہیں: ’مجھ ناچیز پر ایک دور ایسا بھی گزر چکا ہے کہ حیدرآباد اور دِلّی میں کسی شاعر ادیب کا جشن منایا جاتا تو میرا خاکہ جشن کے تابوت میں آخری کیل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔‘ ہمارا خیال ہے کہ کسی مزاح نگار کو سب سے بڑا خراج ان کی تحریروں سے لطف اندوز ہو کے ہی پیش کیا جا سکتا ہے، اسی مقصد کے پیشِ نظر ان کی تحریروں سے چند اقتباسات: ٭ ’’اتنے دبلے پتلے ہیں کہ ملک کی غذائی صورتحال پر ایک مستقل طنز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بھی ملک کو بیرونی امداد کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کا فوٹو بھیج کر من مانی غذائی امداد حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ (خاکہ کنہیا لال کپور) ٭ ’’جب ہمارا جی رشید احمد صدیقی کو پڑھنے کو چاہتا ہے تو مشتاق احمد یوسفی کو پڑھ لیتے ہیں۔ پطرس کو پڑھنے کو جی مچلے تو مشتاق احمد یوسفی کو پڑھ لیتے ہیں۔ حد تو یہ کہ اگر کبھی مشتاق احمد یوسفی کو پڑھنے کو دل چاہے تب بھی مشتاق احمد یوسفی ہی کو پڑھ لیتے ہیں۔‘‘ (خاکہ مشتاق احمد یوسفی) ٭ ’’وہ اُردو بولتے ہیں تو لگتا ہے سچ بول رہے ہیں۔ مَیں نے پنجاب کے کسی اردو ادیب کو اہلِ زبان والے لہجے میں اردو بولتے ہوئے نہیں سنا۔ وجہ دریافت کی تو بیگم آمنہ مشفق کی طرف اشارہ کر کے بولے: ’میری سسرال لکھنو کی ہے۔ زبان پر سسرال کا اتنا اثر تو پڑنا ہی تھا۔ ‘ مَیں نے سوچا ، آج کے دور میں اتنے فرماں بردار داماد کہاں پید اہوتے ہیں کہ سسرال کے ڈر سے اپنا لب و لہجہ تبدیل کر لیں۔ کبھی لکھنو گئے بغیر پنجاب میں بیٹھ کر صرف اپنی اہلیہ کے بل بوتے پر اہلِ زبان کے لہجہ میں اہلیت پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘ (خاکہ مشفق خواجہ) ٭ ’’مَیں نے شعر پڑھنا چاہا تو مجھے عجیب و غریب علامتیں دی گئیں۔ مَیں نے افسانہ پڑھنا چاہا تو نفسیات میرے آگے بڑھا دی گئی۔ نظم پڑھنی چاہی تو تنہائی کا زہر میری ذات میں گھولا جانے لگا۔ادب میں اتنے تجربے کیے گئے کہ ادب لیبارٹری میں تبدیل ہو گیا۔ جب افسانے میں سے کہانی اور غزل میں سے شاعری غائب ہونے لگی تو مَیں ایک دن چپ چاپ اُردو شعر و ادب کو چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔ اب مَیں دوسری زبانیں سیکھ گیا ہوں، خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔‘‘ (اُردو کا آخری قاری) ٭ ’’قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں کہ اس نے آم کو ہندوستان میں پیدا کیا لیکن اس کو کھانے کا طریقہ امریکا اور یورپ کے باسیوں کو سکھا دیا۔‘‘ سب سے آخر میں ان کے ذاتی خاکے ’اپنی یاد میں‘ سے یہ ٹکڑا ملاحظہ ہو: ’’مجتبیٰ حسین(جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منھ کو آنا چاہیے مگر جانے کیوں نہیں آ رہا) پرسوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے، کیونکہ انھیں تو بہت پہلے نہ صرف مر جانا چاہیے تھا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن سے وہ پیدا ہوئے ہیں، تب سے ہی لگا تار مرتے چلے جا رہے ہیں۔ گویا انھوں نے مرنے میں پورے اسّی سال لگا دیے ہیں۔ ہر کام قبل از وقت کیا ، یا بعد از وقت۔ گویا زندگی بھر وقت سے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے ان کا آخری وقت آ گیا۔ شادی بھی کی تو وقت سے پہلے، یعنی اس عمر میں ، جب انھیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟ چنانچہ شادی کی پہلی رات مرحوم اپنے کم عمر دوستوں کے ساتھ کبڈی کھیلنے نکل پڑے۔ گھر کے بزرگ انھیں زبردستی پکڑ کر لے آئے اور تنہائی میں سمجھایا کہ کبڈی کھیلنا ہی ہے تو…‘‘ مختصر یہ کہ ہمارا یہ ہنستا ہنساتا، کھلکھلاتا ادیب ۲۷ مئی ۲۰۲۰ء کو تراسی سال دس ماہ اور اٹھارہ دن کی عمر میں حیدر آباد دکن میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ حق مغفرت کرے عجب دلشاد مرد تھا۔