اس بار نریندر مودی بنگلہ دیش گئے تو وہ پہلے سے زیادہ شدت پسندانہ بہروپ بھرے ہوئے تھے۔ سر اور داڑھی کے بال سادھوئوں سے ہو گئے ہیں‘ مودی کے بنگلہ دیش آتے ہی ہنگامے شروع ہو گئے۔اٹھارہ افراد اب تک جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بنگالی مسلمان مودی کو واپس جانے کا کہہ رہے تھے۔ آخر عوامی لیگ حکومت کو دو دن سوشل میڈیا پر پابندی لگانا پڑی تاکہ مودی کی آمد پر ملک میں ہونے والے فسادات عالمی توجہ حاصل نہ کر پائیں۔ بنگلہ دیش اور بھارتی حکومت کے تعلقات خوشگوار ہیں تاہم بنگلہ دیشی عوام یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بھارتی رہنمائوں نے ان کی محرومیوں کی آڑ میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے ہیں۔ تاریخی طور پر 1911ء کی تقسیم بنگال منسوخی کا واقعہ اور 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریک کے پس پردہ رویے واضح ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیشی مسلمان جسے پاکستان اور پنجابیوں سے آزادی کی تحریک سمجھتے رہے مودی بار بار اعتراف کررہے ہیں کہ یہ بھارت کی سازش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور کانگرس کے درمیان بنگلہ دیش کے قیام کا کریڈٹ لینے کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ مودی کے روانہ ہوتے ہی حالات بگڑ گئے ہندوئوں کی عبادت گاہوں اور املاک پر حملے ہوئے‘ بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ گرفتاریاں ہوئیں مودی نے کہا کہ بنگلہ دیش کی تحریک میں انہوں نے قید کاٹی‘ کانگریسی رہنمائوں نے اپنی حکومت سے ریکارڈ طلب کر لیا ہے کہ 1970-71ء میں نریندر مودی کب‘ کہاں اور کس جرم میں گرفتار ہوئے‘ ابھی تک یہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا سکا۔ حسینہ واجد کا اصرار ہے کہ پاکستان جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتا دو طرفہ تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی‘ وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل ٹیلی فونک رابطے پر حسینہ واجد کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے‘حسینہ واجد کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان 1971ء کے دوران مشرقی پاکستان میں 30لاکھ بنگالیوں کے قتل اور دو لاکھ بنگالی عورتوں کی آبروریزی پر معافی مانگے۔ بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھ کر اگر مبینہ متاثرہ ہر فرد کو 5ہزار سے 10ہزار ڈالر ہرجانہ ادا کیا جائے تو یہ رقم 30ارب ڈالر بن جاتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے قرار داد نمبر 687کے توسط سے کویت پر قبضے اور اسے نقصان پہنچانے پر عراق پر مالی ہرجانہ عائد کیا۔ عراق کو مجبور کیا گیا کہ وہ جنگ سے متاثرہ 15لاکھ افراد کے 52.4ارب ڈالر کے لگ بھگ کے کلیمز کو تسلیم کرے۔2مارچ 2021ء تک عراق نے 49.5ارب ڈالر ادا کر دیے ہیں۔ غیر جانبدار سمجھے جانے والے بنگالی‘ بھارتی اور مغربی تجزیہ کاروں کو 30لاکھ بنگالیوں کے قتل اور 2لاکھ عورتوں کی آبروریزی کے اعداد و شمار جھوٹ معلوم ہوتے ہیں۔ خود بنگلہ دیشی عوام ان اعداد و شمار کو غلط سمجھنے لگے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے یہ سوال بجا طور پر اٹھایا ہے کہ 1971ء کے دوران مشرقی پاکستان میں تعینات پاکستانی فوجی اتنے بڑے پیمانے پر قتل و آبروریزی کیسے کر سکتے ہیں‘عوامی لیگ ایسے جھوٹ کو سچ قرار دینے پر مصر ہے۔ پھر یہ کہ یہ 34ہزار فوجی 4لاکھ بھارتی سپاہ اور اس پر مستزاد مکتی باہنی کے عسکریت پسندوں سے بھی نبرد آزما تھے۔ اسی دوران اکتوبر نومبر میں رمضان المبارک آ گیا۔ کیا ایسے جرائم جنہیں گناہ بھی کہا جا سکتا ہے ماہ رمضان میں جاری رکھے گئے ہوں گے؟ عوامی لیگ نے معافی اور ہرجانے کے بعد تعلقات معمول پر لانے کے لئے تیسری شرط یہ رکھی ہے کہ پاکستان مشرقی پاکستان کے حصے کے اثاثے منتقل کرے۔ مطلب یہ کہ 1971ء میں پاکستان کے پاس اگر 10ٹینک تھے تو 6ٹینکوںکے پیسے بنگلہ دیش کو دیے جائیں کیونکہ اس کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ اسی طرح دوسرے اثاثوں کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش صرف عوامی لیگ نہیں۔ یہاں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کو بہت زیادہ حمایت حاصل ہے‘ یہ جماعت 2بار وزیر اعظم رہنے والی بیگم خالدہ ضیاء کی سرکردگی میں کام کر رہی ہے‘ پھر جماعت اسلامی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے حامی عوامی لیگ کے پاکستان سے مطالبات کی حمایت نہیں کرتے۔ تجزیہ کار حلقے اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ 1975ء سے 1996ء تک کے عرصے تک بنگلہ دیش نے کبھی یہ مطالبات پاکستان کے روبرو نہیں رکھے۔ عوامی لیگ بھارتی سازشوں سے تخلیق ہوئی۔ عوامی لیگ کبھی کھلے عام یہ تسلیم نہیں کرتی کہ اس کے کارکنوں نے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے کتنے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو بیدردی سے قتل کیا‘یہ کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے کتنے بہاری مرد قتل کئے اور بہاری عورتوں کی عصمت دری کی۔ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 9مارچ 1974ء کو سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے نے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی راہ ہموار کر دی تھی‘ اس معاہدے کی شق نمبر 13کہتی ہے کہ ریاست پاکستان 1971ء کے دوران کسی طرح کے جرائم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتی ہے۔پیرا نمبر 14میں وزیر اعظم پاکستان نے بنگلہ دیش کے عوام سے اپیل کی کہ وہ ماضی کی غلطیوں پر معافی اور درگزر کا مظاہرہ کریں۔ اسی پیراگراف میں شیخ مجیب الرحمن نے وضاحت پیش کی کہ ’’وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ماضی کو فراموش کر کے ایک نیا آغاز کریں اور بنگالی جانتے ہیں کہ کیسے معاف کیا جاتا ہے‘‘ حسینہ واجد کو اپنے والد کی بہت سی باتیں یاد ہوں گی۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے نام اور حیثیت سے نا سہی بنگلہ دیش آج بھی ہندو غلبے سے آزاد ایک خود مختار مسلم ریاست ہے جہاں انتہا پسند ہندو سوچ کو قدم جمانے کا موقع نہیں ملے گا۔