سیدنا امام عالیٰ مقام جناب حضرت امام حسین ؓ کو ہر سال محرم الحرام کے ایام میں کروڑوں مسلمان خراج تحسین پیش کرتے ہیں چونکہ کائنات میں اتنی بڑی قربانی آج تک کسی نے نہیں دی ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح سے حضرت امام حسین ؓ اور اُن کے تمام گھرانے کو آزمائش میں مبتلا کیا ہے آج تک کسی بھی بڑی ہستی کو نہیں کیا اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے پیارے بندوں سے ہی امتحان لیتا ہے وہ عالم غیب ذات جانتی ہے کہ یہ میرا بندہ ہی میرے معیار اور میرے امتحان میں پورا اتر سکے گا۔ جو عزت اور مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب جناب حضرت محمد مصطفی ﷺ اور اُن کے اہل بیت کو عطا کیا ہے ویسا مقام بھی کسی گھرانے کو نہیں دیا اور پھر قربانیوں کا جو سلسلہ حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے شروع ہوتا ہے وہ حضرت امام پاک سیدنا حسین ؓ پر آکر پورا ہوتا ہے چونکہ حضور اقدس ﷺ سیدنا ابراہیم ؑ کی آل سے ہیں اور آپؐ کا شجرہ مبارک حضرت اسماعیل ؑ کے بعد سیدنا حضرت ابراہیم ؑ تک ملتا ہے اب ذرا پہلے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی اور حضرت ابراہیم ؑ کی آزمائش پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو نمرود کی طرف سے آگ میں ڈالے جانے سے لے کر حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کرنے تک ثابت قدم پایا ۔ خلیل اللہ جب نمرود کی آگ میں تھے تو پھر بھی سر خرو رہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اِن کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا حکم دیا تو پھر بھی یہ ثابت قدم رہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اِن کو خلیل اللہ یعنی اپنا دوست قرار دیا۔ پھر یہ سلسلہ ا ٓگے چلتے چلتے کربلا کے میدان میں پہنچا اِس میدان کربلا میں جو قربانی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ؐ کے نواسے سے طلب کی وہ صرف ایک قربانی نہیں تھی بلکہ 72 جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا ۔امام عالی ٰمقامؓ نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیا اور پھر جب تن تنہا کربلا کے میدان میں کھڑے تھے اور موت سامنے آرہی تھی تو اپنے مولا اپنے سچے رب سے مخاطب ہو کر عرض کی اے میرے مالک آج میں نے اپنا سب کچھ تیری بارگاہ میں پیش کر دیا اور اب کچھ دیر بعد اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردونگا ۔ اے میرے رب اگر میرے پاس اور بھی کچھ ہوتا تو حاضر تھا یہ وہی حسین ؓ ہے کہ جس نے اپنے نانا سرور کائنات ﷺ کی پشت مبارک پر دوران نماز سواری کی تھی اِ س نماز کے دوران حضور اقدس ﷺ نے 71 مرتبہ سبحان ربی یعلی اعلیٰ پڑھا تھا اور اپنے سجدے کو طول کیا تھا اپنے پاک نانا کے اِس طویل سجدہ کی لاج حضرت امام حسین ؓ نے کربلا کے میدان میں یوں رکھی کہ اپنے 72 جانثاروں کے سر پیش کر دیئے اور خود بھی سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پیش ہو گئے۔ سیدنا امام حسین ؓ ہی کے بارے میں ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدسؐ نے حضرت امام حسین ؓ کو اپنے کندھے مبارک پر اُٹھا رکھا تھا تو سامنے سیدنا عمر ؓابن خطاب مل گئے جنہوں نے حضرت حسین ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے حسین ؓ کتنی خوب صورت اور اعلیٰ سواری پر تم سوار ہو تو حضور اقدسؐ نے جواب دیا کہ اے عمر ؓ یہ بھی تو دیکھو کہ سوار بھی کتنا خوب صورت اور اعلیٰ ہے تو حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ سچ فرمایا ۔یا رسول اللہ ﷺ ایسا ہی ہے ۔ حضور اقدسؐ فرمایا کرتے تھے کہ میرے یہ دونوں بیٹے جنت کے پھول ہیں اِن سے جنت کی خوشبو آتی ہے پھر فرمایا کہ میرے یہ دونوں بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں آپ ؐ جب بھی اپنی پیاری بیٹی سیدہ حضرت فاطمہ بی بی ؓ کے گھر جایا کرتے تو سب سے پہلے اپنے نواسوں حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ کا پوچھتے اگر وہ کہیں باہر گئے ہوتے تو آپ ؓ بے قرار ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ؐ حضرت فاطمہ ؓ کے گھر میں تشریف لائے تو مجھے حکم دیا کہ میرے بیٹے حسین ؓ کو میرے پاس لاؤ میں نے حضرت حسین ؓ کو جو باہر کھیل رہے تھے پکڑا اور حضور اقدس ؐ کے پاس لے آئی ۔ حضور اقدس ؐ نے حضرت حسین ؓ کو اپنی گود میں لیا اور اُنہیں پیار کرنے لگے ۔ اِس کے کچھ دیر بعد حضور اقدس ؐ رونے لگے ۔تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ کس چیز نے آپ کو تکلیف دی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اے ام سلمہ ؓ ابھی میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص فرشتہ آیا اور اُس نے مجھے یہ بتایا کہ اے محمد کریم ؐ آپ کا یہ پیارا نواسہ سیدنا حسین ؓ آپ ؐ کی اُمت کے ہاتھوں کربلا کی سر زمین پر بے یارو مد گار شہید ہو گا پھر اُس فرشتے نے کربلا کی مٹی مجھے دی جو سرخ رنگ کی تھی یہ سن کر آپ ؐ بڑے غمگین ہوئے اور رونے لگے اور حضرت امام حسین ؓ کو پیار کرنے لگے پھر آپ ؐ نے وہ مٹی حضرت ام سلمہ ؓ کو دی اور فرمایا کہ اِس کو اپنے پاس محفوظ رکھ دو ۔ جس روز یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین ؓ شہید ہو گیا واضح رہے کہ حضور اقدس ﷺ کی تمام ازواج میں سے سب سے طویل عمر حضرت ام سلمہ ؓ نے پائی تھی وہ 61ئ؁ ہجری حضرت امام حسین ؓ کی شہادت تک زندہ تھیں اور جس روز دس محرم الحرام 61 ہجری میں کربلا کے صحرا میں حضرت امام حسین ؓ کو شہید کیا گیا تو اُس رات حضرت ام سلمہؓ نے خواب میں حضور اقدس ؐ کو دیکھا کہ آپ ؐ بہت پریشان اور غمگین ہیں تو حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کیوں غمگین ہیں تو حضور اقدس ؐ نے فرمایا کہ اے ام سلمہ ؓ میرے بیٹے حسین ؓ کو میری اُمت کے لوگوں نے کربلا کے صحرا میں شہید کر دیا ہے میں ابھی مقتل گاہ حسین ؓ سے ہو کر آرہا ہوں تو حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں فورا بیدار ہوئی اور وہ کربلا کی مٹی جو مجھے حضور اقدس ؐ نے دی تھی اور اُسے میں نے ایک شیشی میں رکھا تھا تو وہ اُس وقت خون بن چکی تھی ۔کوفیوں نے حضرت امام حسین ؓ کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا تھا حضرت امام حسین ؓ نے عمر بن سعد ؓ کو آخر میں خطوط بھی دیکھائے اور فرمایا کہ مجھے اِن لوگوں نے خود بلایا ہے ۔ اسی طرح آپ ؒ نے حُر کے سامنے بھی کوفیوں کے خطوط کا ذکر کیا آپ ؓ نے طبقہ بن سمعان کو حکم دیا کہ وہ خطوط کا تھیلا لے آئیں پھر آپ ؓ نے دس محرم الحرام کی شب اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہالوگو! میں نہیں جانتا کہ آج روئے زمین پر میرے ساتھیوں سے کوئی اور افضل اور بہتر لوگ بھی موجود ہیں اے لوگو تم سب کو اللہ تعالیٰ میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے اگر تم رات کی تاریکی میں واپس جانا چاہوں تو چلے جاؤ یہ سن کر سب نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا عشرہ کی صبح عمر بن سعد ؓاپنی دس ہزا ر سے زائد فوج لے کر نکلا اور حضرت حسین ؓ بھی اپنے 72 جانثاروں کے ساتھ میدان میں اُتر ئے علم اپنے بھائی حضرت غازی عباس کو عطا کیا اور پھر اللہ سے مدد مانگ کر میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے پھر اُسی دن فلک نے ایک عجب منظر دیکھا کہ 61 سال کے بوڑھے حضرت حسین ؓ بڑی بہادری اور جانبازی کے ساتھ اپنے 72 جانثاروں کو اپنے آپ پر قربان ہوتا دیکھے رہے ہیں اور آخر میں نماز خوف اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد شیر کی طرح میدان میں اترے اور جدھر بھی رخ کرتے تو یزیدی فوج بکریوں کی طرح بھاگ کھڑی ہوتی آخر جب آپ لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہو گئے اور اِس دوران آپ نے اپنے رب کی بار گاہ میں سجدہ کیا تو سجدہ کی حالت میں آپ ؓ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور یوں جو امتحان قدرت نے حضرت امام حسین ؓ سے لیا وہ اُس میں سر خرو اور کامیاب ہو گئے ۔ شاہ است حسین بادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین