اس کا ئنات انسانیت میں ہم مختلف صورت ،شکل ،اعضاء ،حرکات و افعال اور مختلف خواص کی مخلوقا ت کو دیکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور صفت کے کمال پر دلالت کر تا ہے ۔اللہ رب العزت نے اس کائنات میں انسانوں کے علاوہ اور بھی کئی مخلوقات تخلیق فرمائی ہیں جنہیں غیر ذوی العقول کہا جا تا ہے مگر ان کے رہن سہن اور طرززندگی کا جب مطالعہ کیا جائے تو انسان ششدر رہ جاتا ہے ۔اللہ رب العزت ہر چاہے پر قادر ہے جو چاہے پیدا فرماتا ہے ۔ ارشا د با ری تعالیٰ ہے : ’’ اور اللہ نے زمین پر چلنے والے تمام جاندا ر وں کو پانی سے پیدا کیا ہے سو ان میں سے بعض پیٹ کے بل رینگتے ہیں ،اور ان میں سے بعض دو ٹا نگوں پر چلتے ہیں اور ان میں سے بعض چا ر ٹا نگوں پر چلتے ہیں اللہ جو چاہے پیدا فرماتا ہے اور بے شک اللہ رب العزت جوچاہتا ہے اس پر قادر ہے ۔ ‘‘ (النور) قرآن مجید فر قان حمید کی کم و بیش دو سو آیات میں پینتیس مختلف جانور وں کا ذکر موجو د ہے ۔ جن میں پر ندے ،حشرات الارض اور مختلف جنگلی درندے اور پالتو جانور شامل ہیں ۔ اسی طر ح قرآن مجید کی پانچ سو رتیں سورۃ بقرۃ ،سورۃ فیل ،سورۃ نحل ،سورۃ نمل اور سورۃ عنکبوت مختلف جانوروں کے نام پر ہیں ۔حشرات الارض میں سے مچھر ،مکھی،شہدکی مکھی ،مکڑی،ٹڈی،چیونٹی،تتلی ،جوں اور اژدہا کا ذکر قرآن مجید میں موجو د ہے ۔امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’بعض علماء نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں اور حشرات الارض کو ایسے لطیف اعمال کا الہام کیا ہے جن کو وجو د میں لانے اور بروئے کا ر لانے سے اکثر عقلا ء عاجز ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کر تے ہیں جیسا کہ سورۂ نمل میں ہے : ’’ اس چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو ۔ اپنے اپنے بلوں میں گھس جا ئو کہیں سلیمان علیہ السلام اور ان کا لشکر بے خبری میں تمہیں روند نہ ڈالے ۔‘‘ چیونٹی کے اس قول سے یہ بات پتہ چلی کہ اس چیونٹی کا اعتقا د تھا انبیاء علیہم السلام معصوم اور ان کے اصحاب محفوظ ہیں کیوں کہ اس چیونٹی نے کہا کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بے خبری میں تمہیں روند نہ ڈالے یعنی وہ عمدا پائوں تلے نہیں روندیں گے ۔ علامہ محمود آلوسی فرماتے ہیں : ’’اس چیونٹی کا کلام حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجز ہ تھا جیسے گوہ اور بکری کے گوشت کاکلام کر نا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کی مسافت سے چیونٹی کا کلام سن لیا تھا اس سے یہ بات لا زم آتی ہے کہ چیونٹی کو اتنی مسافت سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے آنے کی خبر ہو گئی تھی ‘‘ جو چیونٹی کے احوال میں غورو فکر کر ے گا تو اللہ تعالی کی قد ر ت کاملہ پر عقل دنگ رہ جا تی ہے کہ اس چیونٹی کو اللہ تعالیٰ نے یہ الہا م کیا کہ یہ سردیوں کے لیے گرمیوں میں اپنی خوراک کا ذخیر ہ جمع کر لیتی ہے ۔ شہد کی مکھی مسد س شکل میں شہد کا چھتا بنا لیتی ہے جس کا ہر خانہ چھ پہلو والا ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہو تے ہیں اور ایک دوسرے سے اس طر ح جڑے ہو تے ہیں کہ ان میں کہیں بھی خالی جگہ کی گنجائش نہیں ہو تی اور ایسی کا ری گری سے بنا تی ہے کہ ماہر انجینئر بھی اس کی یہ کا ری گری دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں پھر شہد کی مکھیوں کی ایک ملکہ ہوتی ہے جسے یعسوب کہا جاتا ہے جو اپنی ریاست کا نظام چلاتی ہے اور تمام مکھیاں اس کے حکم کے تا بع ہو تی ہیں ۔ (تبیان القرآن) ارشاد خداوندی ہے : ’’اور آپ کے رب نے شہدکی مکھی کی طرف وحی(فطری اشارہ) کہ کہ پہاڑوں میں ،درختوں میں اور بیل میں اپنا گھر بنا ۔ پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پر وردگا ر کی ہموار کر دہ راہوں پر چلتی رہ ۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشر و ب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ء ہے ۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غو رو فکر کر تے ہیں ‘‘ (النحل) یہ حقیقت ہے کہ کا ئنات کی ہر مخلوق اﷲرب العزت کی حمد و ثنا ء کر تی ہے جیسا کہ قرآن مجید فر قان حمید میں ہے ۔ ’’ ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر تی ہے ۔ ‘‘ ( سورہ بنی اسرائیل ) ابن جریر طبر ی روایت کر تے ہیں کہ انسان نما ز پڑ ھتا ہے اور با قی مخلوق تسبیح پڑ ھتی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ اللہ تعالیٰ نے عقلاء کے علاوہ جما دات ،نباتا ت اور حیوانات کو بھی علم عطا فرمایا ہے جس علم پر ان کے سوا کوئی اور واقف نہیں ہے لہذا جما دا ت ،نباتا ت اور حیوانات اپنے حال کے موافق نما ز بھی پڑ ھتے ہیں تسبیح بھی پڑ ھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے بھی ہیں ۔ حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کا ظمی رحمہ اللہ اسی آیت کے تحت فرما تے ہیں: ’’ ہر چیز کی تسبیح اس کی شان اور اس کے حال کے مطابق ہے جو جس حال میں ہے اسی حال میں اللہ رب العزت کی تسبیح میں مشغول ہے ۔اگر در ختوں اور پہا ڑوں کو دیکھا جائے تو وہ حالت قیام میں اس کی تسبیح کر تے نظر آتے ہیں ۔ زمیں اور ا س کے ساتھ کئی چیزیں حالت قعود میں اس کی تسبیح بیا ن کر رہے ہیں ۔ آبشار اور دریا حرکت کی حالت میں مصروف عبادت ہیں پتھروں کی چٹا نیں سکون کی حالت میں مصرو ف عبادت ہیں اور حشرات الارض سجد ے کی حالت میں مصر و ف عبا دت ہیں۔ حشرات الارض نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے محر وم نہیں رہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ جب تم ہریالی میں سفر کر و تو زمین سے اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب خشکی میں سفر کر و تو تیز چلو اور جب تم اخیر شب میں قیام کر وتو گزرگاہ سے ہٹ جائو کیوں کہ رات کے وقت یہ جانوروں اور حشرات الارض کی آماجگاہ ہو تی ہے ۔(صحیح مسلم ) چوں کہ رات کے وقت حشرات الارض اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں پڑائو ڈالنے سے منع کیا اور اسی سلسلہ میں فرمایا کہ سوراخ میں پیشاب نہ کرو اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ ان سوراخوں اور بلوں میں حشرات الارض کا ٹھکا نہ ہو تا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں :’’ ہم ایک مر تبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کے دوران ایک ایسی وادی سے گزرے جو قریۃالنمل تھی یعنی اس جگہ نہایت کثیر تعدا د میں چیو نٹیا ں تھیں ۔ ہم میں سے کسی ایک شخص نے یہ سوچ کر کہ کہیں یہ چیونٹیاں ہم پر چڑھ نہ جا ئیں اس وادی کے کسی درخت میں آگ لگا دی جس سے وہ آگ پھیل گئی اورچیو نٹیا ں جل گئیں ۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا ۔ اسے کس نے جلا یا ہے ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا :’’یا رسول! اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ہم نے آگ لگا ئی ہے ۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’آگ کے ساتھ عذاب دینا آگ کے پیدا کر نے والے رب کے سوا کسی کے لیے مناسب نہیں ۔‘‘ یعنی انسان تو انسان حشرات الارض کو بھی آگ میں جلا ناحرام قرار دیا گیا ۔ حشرات الارض کی تخلیق کے پیچھے بے شمارحکمتیں ہیں جن تک عقل انسانی صحیح معنوں میں رسائی حاصل کرنے سے قاصرہے ۔مگرحشرات الارض کی سب بڑی وجۂ تخلیق اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرناہے ۔کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ حاشر:1)