یوں تو تمام صحابہ کرام خاتم النبین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اور عشق مصطفیٰ کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنے دامن کو عقیدت و محبت کے سچے موتیوں سے مالامال کرتے تھے ۔ہر ایک کا بارگاہ خاتم النبین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہونے کا اپنا اپنا انداز تھا۔کچھ عشاقان کا انداز عشق و محبت اوروں سے بالکل منفرد، نرالا اور انوکھا تھا۔ان میں سے ایک ذات حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ہے ۔آپ کا نام جندب اور والد کا نام جنادہ ، ابوذر کنیت اورمسیح الاسلام لقب تھا۔ شروع اسلام میں مکہ میں مسلمان ہوئے ، قد دراز، رنگ سیاہی مائل اور داڑھی گھنی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہفطرتاً فقیر، زہد پیشہ اور تارک الدنیا تھے ۔ مسلمان ہونے سے قبل ہی توحید پرست اور عبادت گزار تھے ۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ چوتھے نمبر پر آتے ہیں اور رابع المسلمین کے لقب سے مشہور تھے ۔ آپ نے اپنی کوشش سے اپنے خاندان اور قبیلہ کو مسلمان کیا۔ بنو اسلم بھی آ پ کی دعوت پردائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ آپ عملی طبیعت کے مالک تھے ۔ جب نئے نئے مسلمان ہوئے تھے تو زیارت خاتم النبین رخ مصطفیٰ کے لیے بے قرار رہتے تھے ۔ لیکن جب دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ملی تو اسے بسروچشم قبول کیا اور اسی کام میں لگ گئے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر مدینہ منورہ تشریف لائے اور بارگاہ مصطفی ٰمیں حاضری دی۔ سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ کان رأسا في الزھد والصدق۔ آپ زہد و صدق کے سردار تھے ۔آپ کا شمار اصحاب صْفہ کی اعلیٰ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے بارے خاتم النبین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ حضرات جنت میں میرے قریب ترین ہوں گے ۔ آپ فطرتا ایسی خوبیوں کے مالک تھے جو اسلام کا حسن ہیں۔ ہر وہ کام کرتے تھے جسے عقل سلیم قبول کرتی ہے ۔ السابقون الاولون میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ سادگی و قناعت میں اپنی مثال آپ تھے ۔ سادگی میں جو بوذری مشہور ہے وہ آپ کی وجہ سے ہی ہے ۔آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی سادگی کہ جس کے بارے میں خاتم النبین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ان سے زیادہ کوئی سچا نہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی تھی۔ زمینیں فتح ہو گئیں۔ برکت آ گئی۔ بہت زیادہ مال غنیمت آیا۔ زکوۃ لینے والے لوگ نہیں ملتے تھے ۔ لیکن ابو ذر کا وہی حال تھا جس حال میں خاتم النبین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چھوڑا تھا۔آپ نے فرمایا:جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی عاجزی کی طرف دیکھے تو وہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ لے ۔ حضرت ابوذر غفاری عشق الٰہی، عشق رسول، جذب و مستی، دنیا سے دوری، فاقہ کشی اور ایثار و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے ۔حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ ہمہ وقت خدمت نبوی میں مصروف رہتے تھے اور مسجد ہی عملی طور پر ان کا گھر تھا۔حضرت علی بن عثمان ہجویری (المعروف داتا گنج بخش) کشف المجحوب میں فرماتے ہیں، نبی کریم ﷺنے حضرت ابوذر غفاری اور حضرت سلمان فارسی کے درمیان برادری قائم کی۔یہ دونوں اہل صْفہ کے سپاہی اور باطن کے رئیسوں میں سے تھے ۔ حضرت ابوذر کا اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے جو کہ صحیح بخاری میں تفصیل سے درج ہے ۔آپ اللہ کے آخری رسول کی تلاش میں مکہ معظمہ تشریف لائے اور کئی روز تک حرم شریف میں مقیم رہے ۔ بالآخر رضائے ا لٰہی سے ان کا رابطہ حضرت علی سے ہوا جن کے پیچھے وہ محتاط اور خفیہ انداز سے حضور اکرم کے گھر پہنچے ۔ فرماتے ہیں،عرض پرداز ہوا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر اسلام پیش کریں۔ خاتم النبین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:اے ابوذر اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جائو، جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا۔ میں نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل ا س کا اعلان کروں گا۔ اس کے بعد میں مسجد حرام آیا، قریش موجود تھے میں نے کہا، قریش کے لوگو!اشھدأن لاالٰہ الا اللہ وأشھد أن محمد عبدہ و رسولہ لوگوں نے کہا، اٹھو اس بے دین کی خبر لو، لوگ اٹھ پڑے اور مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجائوں لیکن حضرت عباس نے مجھے آبچایا۔ آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک خاص خصوصیت یہ بھی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے اسرار آپ رضی اللہ عنہ کو بتائے تھے ۔لوگ جب آپ رضی اللہ عنہ سے کوئی حدیث پوچھتے توآپ فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جو اسرار بتائے ہیں اگر وہ پوچھتے ہو تو نہیں بتائوں گا اسکے علاوہ جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لو۔ حضرت علی بن عثمان ہجویری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوذر غفاری کے زہد کو آٹھ لفظوں میں سمو دیا ہے ۔ اصحاب صْفہ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ ابوذر جندب بن جنادہ غفاری زہد میں عیسیٰ اور شوق میں موسیٰ صفت تھے ۔سبحان اللہ دو نبیوں کی صفات والے ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی کا مقام کتنا ہے ؟میں گنہگار تو اندازہ کر ہی نہیں سکتا لیکن ذرا تصور کیجئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کتنے عظیم تھے ، کتنے بلند درجہ تھے ۔ ادب سے ان کا ذکر اور ان سے محبت و عقیدت بخشش ہے ، جسے اللہ پاک توفیق دے ۔ حضرت ابوذر غفاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ تک مدینہ منورہ میں ہی رہے ۔ بعدازاں کچھ عرصہ شام میں گزارہ اور پھر مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کہنے پر یا انہوں نے خود مقام’ربذہ‘ میں قیام کی خواہش کی اور وہاں ہی رہے اور وہاں ہی انتقال ہوا۔ وفات کے بعد ایک یمنی قافلہ جو کوفہ سے آرہا تھا ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی تھے اس جگہ پر پہنچے تو انہوں نے ہی ان کو غسل دے کر نماز جنازہ پڑھائی اور اسی جگہ پر دفن کردیا گیا ۔ مصادرومراجع: طبقات ابن سعد،مسند احمد، صحیح بخاری،مستدرک حاکم،کشف المحجوب ۔