اﷲ تعالی نے مخلوق کی ہدایت کے لیے انبیا ء و رُسل کا سلسلہ جاری فرمایا۔ کچھ کو کتاب وشریعت دے کر کسی قوم کی طرف مخصوص زمانہ کے لیے بھیجا گیا اور ان میں اکثر کو پیروی میں بھیجا گیا حضرت اسحاق علیہ السلام کو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں بھیجا گیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام جناب حضرت سارہ بنت ہاران بن ناخور کے بطن سے متولد ہوئے ۔ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی عمر اس وقت کم و پیش 12 یا 13 سال کی ہوئی تھی۔ان حضرات انبیاء کرام میں سے اکثر کا تذکرہ قرآن مجید میں اجمالاً اور بعض کا تفصیلاً بھی بیان ہوا جبکہ بعض کے صرف نام ہی ذکر کئے گے ۔ کلام اﷲ، یعنی قرآن مجید کے نزول سے قبل ان حضرات انبیاء کرام کے احوال اہل کتاب اپنی ترمیم شدہ آسمانی کتب سے کیا کرتے تھے ۔ قرآن مجید کے نزول کے بعد اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی تلبیس ابلیس کھول گئی۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی ہی کچھ انہونی باتیں مشہور کر رکھیں تھیں۔ مثلاً: یہودی دعویٰ کرتے تھے حضرت اسحاق علیہ السلام ہی ذبیح اﷲ تھے ۔ چنانچہ کتاب پیدائش، باب ۲۲ میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی کا تذکرہ موجود ہے اسی کے ساتھ یہ بھی اسی باب ۲۲ میں کئی جگہ بے شمار مرتبہ یہ تصریح بھی ہے کہ جس بیٹے کو قربانی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام لے گئے تھے وہ آپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔کتاب پیدائش کے باب 21 میں یہ واضح طور پر موجود ہے کہ حضرت اسحاق سے پہلے حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے بطن اطہر سے ایک فرزند تولّد ہوا تھا۔(ملاحظ کیجئے : آیت نمبر: 9-8)۔ حضرت ا سما عیل علیہ السلام کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمرمبارک 86 سال تھی۔ اور جب حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے اس وقت آپ کی عمر مبارک 100 سال تھی۔ قرآن کریم نے اس حقیقت سے یوں پردہ اُٹھایا کہ قوم لوط کی تباہی کے فرشتوں کو بھیجا گیا تھا اس وقت وہ معزّز فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری دینے تشریف لائے ، جبکہ حضرت سارہ بنت ہاران بن ناخور، جو آپ کے چچا کی بیٹی تھیں پاس کھڑی تھیں۔ (ترجمہ قرآن: ’’جب ہم نے ان کو ایک فرزند کی نوید سنائی تو وہ ہنس پڑیں‘‘) تفسیر قرطبی اور تفسیر کبیر میں صراحت سے ہے کہ حضرت ہاجرہ کے بطن سے ا سما عیل علیہ السلام جیسے حسین فرزند مرحمت فرمائے گئے تھے اور جناب سارہ تھیں جن کی شاخ اُمید ابھی پھول سے محروم تھی یہ خوشخبری انھیں سنائی جارہی تھی۔ حضرت خلیل اﷲ علیہ السلام جب ولد صالح کی دعا کیا کرتے ہیں۔ دعا قبول ہوئی اﷲ نے فرزند مرحمت فرمایا، ابھی بچہ کی عمر 13سال کے قریب ہوئی کہ اسی بچہ کو قربان کرنے کا حکم ملا اور ساتھ ہی ایک اور فرزند کی خوشخبری بھی سنائی گئی،نیز جب اسحاق کی ولادت کی نوید جانفزا دی جاتی ہے اسی کے ساتھ ان کے بیٹے یعقوب کی بھی خوشخبری بھی دی جاتی ہے ۔ اس سے واضح ہوا کہ اسحاق صاحب اولاد بھی ہونگے ۔اب ذرا نظر انصاف سے دیکھئے کہ ایک طرف اسحاق کی ولادت اور ان کے صاحب اولاد ہونے کی خوشخبری دی گئی اور دوسری طرف ان کے قربان کرنے کا حکم۔ اﷲ کا کلام اس قسم کے تضاد کا متحمل نہیں۔ کچھ لوگوں نے اس کا ایک جواب یہ دیا ہے کہ یہ قربانی کا واقعہ حضرت یعقوب کی ولادت کے بعد کا ہے تو یہ انتہائی مضحکہ خیز جواب ہوگا کیونکہ وہ دنبہ جو فدیہ کے طور پر ذبح کیا گیا تھا اس کے سینگ کعبۃ اﷲ کی چھت میں مدفن تھے ۔اور ذبح کا یہ واقعہ میدان منیٰ میں انجام پایا اور یہ مکہ میں ہے اور یہ تاریخ عرب میں ساڑھے چار ہزار سال سے معروف و مشہور تھا۔تاریخ میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ حضرت اسحاق علیہ السلام مکہ مکرمہ تشریف لائے تھے ۔ (بحوالہ: تفسیر ابن کثیر۔ تفسیر کبیر۔ تفسیر قرطبی)۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت اسحاق کا نام کے ساتھ تذکرہ ملتا ہے مثلاً: سورۃ الانبیاء کی آیت 72 میں یوں ہے : اور ہم نے انھیں عطا فرمایا اسحٰق اور یعقوب (جیسا)پوتا‘‘۔ سورۃ الصّفٰت کی آیت نمبر: 112’’اور ہم نے بشارت دی اسحاق کی کہ وہ نبی ہوگا‘‘۔ سورۃ الانعام: آیت نمبر: 84 میں یوں ارشاد ہوا: ’’اور ہم نے اس (ابراہیم) کو اسحاق اور یعقوب مرحمت فرمائے ، اور ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی‘‘ ۔بخاری و مسلم میں حضرت ابو ذر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا، پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مسجد حرام،‘‘ میں نے عرض کیا پھر کون سی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’بیت المقدس‘‘ میں نے عرض کیا دونوں کے درمیان کتنی مدّت تھی؟ فرمای: چالیس سال۔(بحوالہ: بخاری و مسلم: من حدیث سلیمان بن مہران۔ قصص الانبیاء ) اہل کاب کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کی بنیاد حضرت یعقوب علیہ السلام نے رکھی۔واضح ہوا کہ حضرت ا سما عیل اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے تعمیر کعبۃ اﷲ کے چالیس سال کے بعدپوتے حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس بنیاد رکھی۔ اور بعد میں اس کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے مکمل فرمائی۔ ان سے ثابت ہوا کہ روئے زمین پر اﷲ کی عبادت کے لئے پہلا گھر کعبۃ اﷲ ہے ۔ اور وہ ہی قبلہ اوّل ہے ۔ قرآن میں بھی اس بارے میں یوں ارشاد ہوا: ’’بے شک پہلا گھر جو بنایا گیا لوگوں کی عبادت کے لیے وہ مکہ میں ہے ‘‘ سورہ اٰل عمران: آیت نمبر: 96۔ حضرات انبیاء حالات اور واقعات کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے ان حضرات نے اﷲ کے پیغام دین کو پہچانے میں کس قدر ہمت و استقلال۔ جرات وبہادری اور اخلاص کے ساتھ ہم تک پہنچایا اور اس راہ میں ہر قسم کی قربانی بھی دی اپنی جان، مال، اولاد اور ہر محاذ پر ڈٹ کر کھڑے رہے کسی ملامت کرنے والے کی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہ دین انتہائی قربانیوں کے بعد ہم تک پہنچا ہے اس کی حفاظت اور نشر و اشاعت اب ہماری ذمہ داری ہے ۔