بر صغیر کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا 122 واں تین روزہ سالانہ عرس کوٹ مٹھن میں شروع ہے ۔ اس وقت ہزاروںعقیدت مند عرس میں شریک ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق تین دن کے مختلف اوقات میں قریباً پانچ لاکھ افراد عرس میں شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ خواجہ فرید کے ہندوستان کے صوبہ راجھستان میں بھی عقیدت مندوں کی کثیر تعداد موجود ہے کہ یہ صوبہ چولستان سے ملحقہ ہے اور تقسیم سے پہلے پورا ہندوستان ایک تھا ۔ خواجہ فرید نے اپنی زندگی کے 17 سال چولستان میں گزارے ، انہوں نے اپنی محبتوں سے چولستان جسے مقامی زبان میں روہی کہتے ہیں کو امر کر دیا ۔ خواجہ فرید نے روہی کو دعا دیتے ہوئے فرمایا ’’ ایہا روہی یار ملاوڑی ہے ‘ شالا ہووے ہر دم ساوڑی ہے ‘ ونجٖ پیسوں لسڑی گٖاوڑی ہے ‘ گھن اپنے سوہنے سئیں وو کنوں‘‘ ۔ اسی طرح خواجہ فرید نے روہی کے ایک ایک ذرے سے پیار کیا اور تو اور خواجہ فرید نے روہی کے جانوروں کو بھی ان الفاظ میں دعا دی ’’ نازو جمل جمیل وطن دے ‘ راہی راہندے راہ سجٖنْ دے ‘ ہوون شالا نال امن دے ‘ گوشے ساڈٖے ہاں دے ہِن ۔ ‘‘ خواجہ فرید نے اپنے چولستان میں قیام کے دوران وہاں کے عام آدمی سے اس قدر محبت کی کہ وہ امر ہو گئے ۔ آج فریدیات کے طالب علم خواجہ فرید کے اس شعر ’’ پُھلو ڈہے تے منت لیسوں ‘ تھورا چڑھیسوں لالو لاڑ تے ‘‘ کی تشریح کرتے ہیں تو وجد میں آ جاتے ہیں کہ پُھلو ڈٖاہا یا لالو لاڑ کوئی سردار ، تمندار ، نواب یا مخدوم نہ تھے بلکہ عام روہیلے تھے اور خواجہ فرید کی محبت سے امر ہو گئے ۔ خواجہ فریدؒ بادشاہ تو نہیں تھے مگر بادشاہوں کے بادشاہ ضرور تھے ۔ کئی ملکوں کے بادشاہ ان کے مرید تھے لیکن اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کہ آج کے ’’خوش عقیدہ مولوی‘‘ خواجہ فریدؒ کو جتنا مرضی ماورائی مخلوق بنانے یا دھرتی سے جدا کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیں کہ خواجہ فریدؒ کا کلام تصوف کے ماسوا کچھ ہے ہی نہیں ، لیکن پھر بھی خواجہ فریدؒ اس دھرتی کا شاعر ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ خواجہ فریدؒ نے تصوف کی شاعری بھی کی ہے لیکن اس سے زیادہ اپنی مٹی اور اپنی دھرتی کی شاعری کی ہے ۔ وہ دھرتی کے شاعر تھے ، ان کے پیری مریدی کے حوالے سے انکار نہیں مگر آج کے پیری مریدی کے مقابلے میں وہ بہت بڑے انسان دوست اورعظیم انسان تھے ۔تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ خواجہ فریدؒ دھرتی کا شاعر ہے ، خواجہ فریدؒ نے اس وقت اپنی زبان میں شاعری کی جب تخت و تاج کی زبان فارسی ، اُردو اور انگریزی تھی اور سرائیکی کو کوئی پوچھتا نہ تھا ۔ خواجہ فریدؒ نے سرائیکی صنف میں کافیاں اس وقت لکھیں جب غزل اور نظم عروج پر تھی ۔ خواجہ فریدؒ نے کمال ہنر مندی سے حمد ، نعت ، غزل ، نظم اور قصیدے کو بھی کافی کے روپ میں ڈھال کر پیش کر دیا۔خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں بدیسی قصے لیلیٰ ، فرہاد کا ذکر برسبیل تذکرہ ایک آدھ مرتبہ کیا ، جبکہ اپنے دیس کے عشقیہ کردار سسی پنوں اور ہیر رانجھے کا باربار کیا ۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ خواجہ فریدؒکو اپنے وطن ، اپنے وسیب اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت تھی ۔ اس سے بڑھ کر اپنی دھرتی سے محبت کا اظہار کیا ہو سکتا ہے کہ اپنی دھرتی پر چرنے والے مویشیوں کے گوبر کو بھی اپنے لئے شفا سمجھتے ہیں،ایک اور جگہ بھینسوں کے اسی خشک گوبر کو چشمِ بصیرت کیلئے نور قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: پاہ ہنباہ تے دھوڑ مہیں دی ڈٖسدا نور اَکھیں دا خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں اپنی دھرتی کی تلمیحات، دھرتی کی تشبیہات اور دھرتی کے استعارے کو استعمال کیا ہے ۔ ان کے نزدیک اپنی دھرتی ہی سب کچھ ہے: وادیٔ ایمن تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہِن کوہ طور ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ہر ہر قطرہ آب ہے کوثر گرد و غبار ہے مشک تے عنبر کِرڑ کنڈا شمشاد صنوبر خار دی شکل بہار دی ہے آخر میں درد مندی کے ساتھ دربار فرید کے مسائل کا ذکر کروں گا ۔ محکمہ اوقاف کے پاس ساڑھے 12 ہزار ایکڑ دربار فرید کی وقف اراضی ہے ۔ دوکانات ، مکانات ، باغات و دیگر املاک اس کے علاوہ ہیں ، لیکن زائرین کیلئے کوئی سہولت ہی نہیں ۔ نہ کوئی رہائش گاہیں ہیں کہ سردی میں لوگ ٹھٹھر جاتے ہیں ۔ باتھ روم تک کی سہولت نہیں ۔ ایک عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ خواجہ فرید کی وقف اراضی پر خواجہ فرید یونیورسٹی بنائی جائے اور ایوان اقبال کی طرز پر ایوان فرید بنایا جائے اور چاچڑاں شریف کے فرید محل کو قومی یادگار قرار دیا جائے ۔ مگر آج تک کوئی شنوائی نہیں ہو سکی ۔ اگر پاکستان میں غیر مسلم سکھوں کے پیشوا بابا گرو نانک کے نام سے یونیورسٹی بنائی جا سکتی ہے تو خواجہ فرید یونیورسٹی کیوں نہیں؟ ایک عرصے سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ کوٹ مٹھن کو تحصیل کا درجہ دیا جائے ، تحصیل کا درجہ تو کیا دینا تھا موجودہ بلدیاتی سسٹم میں اس کی ٹاؤن کمیٹی کی حیثیت بھی چھین لی گئی ہے۔ میں یہ بھی عرض کروں گا کہ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ خواجہ فریدؒ کی دُعائوں سے روہی جو نئے سرے سے آباد و شاد ہو رہی ہے ، دھرتی کے اصل وارثوں کے ہاتھوں سے کیوں نکلی جا رہی ہے جن کی 70پشتیں روہی کے صحرائوں میں دفن ہیں‘ روہی ان کے ہاتھ سے کیوں نکل رہی ہے ؟ آج اگر صدیوں بعد تھوڑے پانی کے وسائل ہوئے ہیں تو کیا وہ ان زمینوں کے حقدار نہیں ؟ اور کیا ہم نے غور کیا ’’صحرائی حیات‘‘ کی بقا کیلئے لکھ لکھ چھیڑو کی جگہ ’’شکاری چھیڑئوں‘‘ نے کیوں لے لی ہے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ روہی کا سنگھار کالا ہرن ، چنکارہ ، بارہ سنگھا اور کالے خرگوش کو کون کھا گیا ہے ؟ روہی میں تلور ، مرغابی ، باز اور کونج نے آنا کیوں کم کر دیا؟ اور روہی کا تیتر ، کشمیرا ، چرگ ، بھوکڑ ، چکری اور دوسرے پرندے کہاں گئے؟ شاید ان تمام باتوں کو سمجھانے کیلئے اور روہی بچانے کیلئے روہی کو ایک مرتبہ پھر ایک اور خواجہ فریدؒ کی ضرورت ہے اور سرائیکی دھرتی کو ایک اور خواجہ فریدؒ دریافت ، تلاش اور تخلیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود خواجہ فریدؒ کی زبانی معمولی رعایت کے ساتھ ہم خواجہ فرید سئیں کی خدمت التجا کرتے ہیں کہ: اپنْی نگری آپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے