صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت باکمال سے فیض یاب ہونے والی عظیم ہستیوں کو تابعین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔تابعین کا مقام ومرتبہ بہت اعلی و ارفع ہے ، ان عظیم ہستیوں نے نہ صرف اسلام کی نشر واشاعت میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس میں مزید وسعت بھی دی۔ان عظیم الشان ہستیوں کی رشدوہدایت اور اصلاح و فلاح کی گواہی قرآن وحدیث نے دی ہے ۔تاریخ اسلام کے اوراق بے شمار تابعین کرام کی روشن زندگیوں سے بھرے پڑے ہیں۔انہیں عظیم تابعین میں سے ایک بہت ہی عظیم عالم باعمل،صاحب تقویٰ، عظیم محدث، فقیہ مدینہ،جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمر کے بیٹے اور خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنھم بھی ہیں۔ حضرت سالم بن عبداللہ مدینہ منورہ کی معطر فضاؤں میں عہد عثمانی میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد محترم حضرت عبداللہ بن عمر نے آپ کا اسم گرامی ایک جلیل القدر صحابی رسول حضرت سالم مولیٰ ابی حنیفہ کے نام پر’ سالم‘ رکھا۔ حضرت سالم بن عبداللہ ددھیال کی طرف سے بہت اعلی حسب ونسب کے مالک تھے تودوسری طرف آپ کا ننھیال بھی ایرانی شاہی خاندان تھا۔عہد فاروقی میں یزدگرد شہنشاہ ایران کی تین لڑکیاں گرفتار ہوئیں تو ان میں سے ایک لڑکی حضرت عبداللہ بن عمر کے حصے میں آئی جس کے بطن سے حضرت سالم بن عبداللہ پیدا ہوئے ۔ (تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی ج 3 ص438) حضرت سالم بن عبداللہ ایک نہایت خوبرو،قوی اور اپنے باپ حضرت عبداللہ بن عمرکے ساتھ ساتھ اپنے دادا حضرت عمر بن خطاب کے بھی مشابہ تھے ۔ ایک طرف آپ کا رعب اور دبدبہ اپنے دادا کی طرح تھا تو دوسری طرف آپ کا وجود سادگی اور عاجزی و انکساری کا پیکر تھا۔عاجزی اور انکساری میں آپ اپنے باپ عبداللہ بن عمر کے مشابہ تھے ۔انتہائی سادہ خوراک کھاتے تھے ،سادہ اور کھردرے کپڑے پہنتے تھے ۔ حضرت سالم بن عبداللہ ہر وقت علم کی طلب میں رہتے ، بہت جلد ہی آپ مدینہ منورہ کے بہت بڑے مفتی بن گئے اور آپ کا شمار سات عظیم فقہائے مدینہ میں بھی ہونے لگا۔ جیسا کہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ حضرت سالم بن عبداللہ کا شمار مدینہ منورہ کے سات فقہاء میں سے ہوتا ہے اور آپ مدینہ کے صاحب دارلافتاء کے ممتاز رکن تھے ‘‘۔(اعلام الموقعین ج1ص25) حضرت سالم بن عبداللہ اپنے والد کی طرح بہت عظیم محدث تھے ۔آپ نے بہت سی احادیث مبارکہ اپنے والد سے روایت کیں، اسی طرح دیگر کبار صحابہ کرام جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ،حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ،حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی آپ نے استفادہ کیا۔امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ نے آپ کے اس سلسلہ سند ’عن زھری عن سالم عن عبداللہ عن ابیہ ‘کو اصح الاسناد قرار دیا ہے ۔اسی طرح ابن سعد فرماتے ہیں کہ ’’حضرت سالم تابعین کے سردار تھے ۔آپ بہت بڑے عالم، اہل ثقہ اور کثیر احادیث روایت کرنے والوں میں سے ایک تھے ۔اسی طرح آپ سے بہت سے علماء و محدثین نے بھی احادیث روایت کیں‘‘۔(تہذیب التہذیب،ج،3،ص،438) حضرت سالم بن عبداللہ عظیم عالم ہونے کے ساتھ ساتھ باعمل اور صاحب تقویٰ بھی تھے ۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ حضرت سالم بن عبداللہ کے زمانے میں کوئی شخص بھی زہد و تقویٰ اور علم وعمل میں آپ سے زیادہ صالحین کے مشابہ نہ تھا‘‘۔ حضرت سالم بن عبداللہ کو دنیا اور مال دنیا کی طرف کوئی رغبت نہ تھی۔ آپ ہمہ وقت آخرت کی نعمتوں کی طرف راغب رہتے تھے ۔آپ نے آخرت کی کامیابی کی امید پر دنیا سے روگردانی کرلی تھی۔خلفائے بنو امیہ نے آپ کو دنیا کے مال و متاع کی بار بار لالچ دی لیکن آپ نے ہمیشہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور دنیوی مال و متاع اور لالچ کو اپنے قریب تک نہ آنے دیا۔حضرت سالم بن عبداللہ جب خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے دور میں حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو آپ بیت اللہ کے پاس قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھے کہ آپ کے پاس خلیفہ سلیمان بن عبدالملک آیا تو آپ نے خلیفہ کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی بلکہ اسی طرح تلاوت قرآن میں مگن رہے حتی کہ جب آپ تلاوت قرآن سے فارغ ہوئے تو خلیفہ نے پوچھا کہ اے سالم میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا۔آپ نے فرمایا’’ واللہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر کسی اور سے اپنی حاجت بیان کروں‘‘۔ اسی طرح جب آپ بیت اللہ سے باہر تشریف لے آئے تو خلیفہ نے پھر وہی بات دہرائی اور ساتھ کہا کہ اب تو آپ بیت اللہ میں کھڑے نہیں ہیں توآپ نے پوچھا کہ دنیا کی حاجت یا آخرت کی؟خلیفہ نے تھوڑے توقف کے بعد کہا کہ دنیا کی ضرورت۔تو آپ نے فرمایا جو دنیا کا مالک ہے میں تو اس سے بھی دنیا کی ضروریات نہیں مانگتااور جو دنیا کا مالک ہی نہیں ہے میں اس کے آگے کیوں کر ہاتھ پھیلاؤں گا؟ خلیفہ شرمندہ ہوا اور سلام کہہ کر چلا گیا۔وہ آپ کو نہ تو دنیا کی طرف مائل کر سکا اور نہ دنیا کے مال و متاع کی طرف، جاتے جاتے یہ بھی کہہ گیا کہ آل عمر کا زہد وتقویٰ نہ صرف قابل ذکر ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔(طبقات ابن سعد ج5 ص195) حضرت سالم اپنے باپ حضرت عبداللہ بن عمر کی طرح بہادر تھے ۔صرف وہی کام کرتے جس کی شریعت مطہرہ نے اجازت دی ہوتی۔ایک مرتبہ حجاج بن یوسف نے حضرت سالم بن عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ ایک آدمی کو تلوار کے وار سے قتل کر دے تو آپ نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو قتل نہیں کرسکتا جو مسلمان ہو اور فجر کی نماز بھی ادا کرتا ہوکیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جس نے فجر کی نماز ادا کی تووہ اللہ کی حفاظت میں ہے ‘‘لہذا جو شخص اللہ کی حفاظت میں داخل ہو چکا ہو تو سالم بن عبداللہ اسے کیسے قتل کر سکتا ہے ؟غرض آپ نے حجاج بن یوسف کے اس خلاف شرع حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور وہی کیا جو شریعت مطہرہ کا حکم تھا۔حجاج بن یوسف یہ سن کر بہت زیادہ سیخ پا ہوا مگر آپ نے اس کے غصے کو کوئی اہمیت نہ دی اور حق پر بہادری کے ساتھ قائم رہے ۔(صورمن حیاۃ التابعین از رافت پاشا،ص، 210) حضرت سالم بن عبداللہ عالم باعمل زہدو تقوی اور ہدایت کے قابل تقلید نمونہ تھے ۔ساری زندگی اسلام کی اشاعت کرتے رہے بالآخر ہدایت کا یہ روشن ستارہ ایک طویل عمر پا کر ذوالحج 106 ھ کو غروب ہوگیا۔خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔(طبقات الفقہاء از شیرازی ص،62) حضرت سالم بن عبداللہ کے اس مختصر تذکرہ پاک میں ہمارے لیے پیغام یہ ہے کہ ہم خود بھی دین اسلام پر حقیقی معنوں میں عمل کریں اور دوسروں کو بھی اس کی طرف مائل کریں اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تربیت اسلامی خطوط پر کریں کیونکہ صحیح خطوط پر کی گئی تربیت ہی ایک مسلمان کو معاشرے کا کار آمد فرد بنا سکتی ہے ۔ اللہ سے دعا ہے وہ ہمیں اسلام کے ان تمام عظیم ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ،آ مین!