نابغہ عصر،مفکر اسلام،مفسر قرآن،کشتہ عشق رسول حضرت ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ (1918تا 1998)کا شمار عالم اسلام کی ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جو بلاشبہ پوری امت کا اجتماعی سرمایہ ہیں۔ ایسی ہمہ صفت موصوف اور عہد ساز ،نابغہ عصر،یکتائے زمانہ،دانائے رازہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ۔آپ ایک محب وطن اور محب اسلام تھے ۔ نہ صرف گفتار کے بلکہ کردار کے بھی غازی تھے جبکہ آپ کی زندگی کا مقصدو محور رضائے الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا ۔حیات بہار آفریں کا ایک ایک لمحہ اور ساعت میں اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر جمیل کے گن گاتے رہے خود یہ شعر سنایا کرتے تھے ۔آپ نے چونکہ ایک خانقاہ پر مسند آراء ہونا تھا اور لوگوں کی روحانی و ظاہری ترقی کے لیے رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا تھا لہٰذا روایتی پیر طریقت بننے کی بجائے پہلے اپنی تعمیر سیرت اور تکمیل شخصیت کیلئے خو دکو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور دوران تعلیم علم سے لگائو اور محنت کا یہ عالم ہے کہ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے : اے شمع تجھ پر یہ رات بھاری ہے جس طرح میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح حضور ضیا ء الامت نے اپنے دور کے نامور اساتذہ جناب حضرت علامہ محمد قاسم صاحب مرحوم استاذ المناطقہ مولانا محمد دین بدھوی مرحوم،استاذالمنقول و المعقول مولانا غلام محمود صاحب مرحوم اور سید المفسرین بحر العلوم و الفنون حضرت سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہم اللہ سے اکتساب فیض کیا اور صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ نے تو آپ کے بارے میں فرمایا: ’’میں آج مطمئن ہوں کہ میرے پاس جو امانت تھی وہ میں نے موزوں فر د تک پہنچا دی ہے ۔‘‘ مزید حصول علم کیلئے جامعہ ازہر مصر تشریف لے گئے اور وہاں سے کلیۃ الشریعہ الاسلامیۃ کی سب سے بڑی ڈگری حاصل کی۔ حصول علم کے بعد آپ نے امت مسلمہ کی بحالی کیلئے غوروفکر کیا کیونکہ اس حوالے سے آپ ہمہ وقت بے چین رہتے لہٰذا آپ نے کام کا آغاز کرنے سے قبل دشمنان اسلام کا بھر پور مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے ۔اسلام د شمن قوتیں امت محمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت رسول مٹانے کے درپے ہیں لہٰذا قوم کو ایسا نصاب تعلیم دینا چاہیے کہ جس کے ذریعے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں ہو اور وہ نصاب علوم جدیدہ و قدیمہ کا حسین سنگم ہو۔ آپ کے نصف صدی سے مرتب کردہ نصاب تعلیم کو دیکھ کر آپ کی فراست ایمانی اور بصیرت روحانی کو داد دینے کا جی چاہتا ہے کہ 50سال گزرنے کے باوجود بھی اپنے اندر بھرپور افادیت رکھتا ہے ۔ جنگ آزادی کے بعد مسلمان علماء کے ساتھ جو برا سلوک ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں علماء کرام کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا لہٰذا اس سو سالہ علمی خلا کو پر کرنے کیلئے آپ نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی بنیاد رکھی دارالعلوم محمد یہ غوثیہ کے فارغ التحصیل علماء کرام وطن عزیز اور دیار غیر میں بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر غیر مسلموں کوحلقہ بگوش اسلام کر رہے ہیں ۔(باقی صفحہ 5نمبر2) خاتون جنت جناب سیدہ فاطمہ الزہرائؓ کی سیرت سے منور کرنے کیلئے الکلیتہ الغوثیہ للبنات کی بنیاد رکھی اس وقت دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی برانچز نہ صر ف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی کام کر رہی ہیں۔ 400سے زائد دینی ادارے خدمت دین میں مگن ہیں اور اس وقت 50ہزار کے لگ بھگ طلباء و طالبات براہ راست مستفید ہو رہے ہیں ۔اب الحمدللہ یہ ادارہ الکرم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ بن چکا ہے جس میں بی ایس اسلامک اسٹڈیز،بی ایس عریبک،بی ایس شریعہ لاء اور بی ایس اکنامکس کی کلاسز کا اجراء ہو چکا ہے ۔ آپ ایک مجاہد و غازی کشمیر کے فرزند ہی نہیں تھے بلکہ آپ نے پوری زندگی مجاہدانہ وار گزاری ۔پوری قوم کو جرات و بے باکی اور بھر پور جدوجہد کا درس دیا صحافتی اقدار کے فروغ کیلئے جب مقبول عام ''مجلہ ضیائے حرم''کا اجراء کیا تو اسکی مجلس ادارت کو ہدایات جاری کرتے ہوئے فرمایا:’’صلاح الدین ایوبی،محمد بن قاسم اور سلطان فتح محمد ٹیپو جیسے زعماء کی یاد کو نوجوانوں کے سینوں میں زندہ رکھیں انہیں صلیبی جنگوں کی تاریخ سے آشنا کرائیں۔ امت مسلمہ عروج و زوال کے جن ادوار سے گزری ہے ان کے اسباب و علل پر تفصیلی تحقیق قوم کے سامنے پیش کریں۔‘‘ آپ نے ضیاء القرآن کے نام سے قرآن مجید کی قرآن فہمی پر مبنی تفسیر لکھی جو جامعیت اور تحقیق میں اپنی مثال آپ ہے ۔سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ پر ضیاء النبی جیسی سیرت لکھی جو کہ عصر حاضر میں سیرت سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک شاہکار اور منفرد تصنیف ہے ہر لفظ یوں لگتا ہے جیسے کوثر و تسنیم سے دھو کر لکھا گیا ہے ۔خوبیوں اور محاسن کا مجموعہ ضیاء النبی جہاں قاری کو مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنائی بھی بخشتا ہے اوروہاں عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رعنائی بھی عطاکرتاہے ۔آپ نے اغیار کی ریشہ روانیوں کے سبب مختلف فتنے سر اٹھاتے رہتے ہیں فتنہ قادیانیت اور فتنہ انکار سنت بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے آپ نے تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے موثر اور جاندار کردارادا کیا ۔ ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات امت مسلمہ کیلئے نفع بخش تھی ۔آج چار دانگ عالم میں آپ کے تعلیمی ادارے اور تصنیفات ایک بہت بڑے طبقہ کو فیض یاب کر رہے ہیں ۔آپ کی پوری زندگی اہل اسلام ،اہل پاکستان اور آفاق میں پھیلے تمام مسلمانوں کیلئے قیمتی ترین متاع تھی ۔ہر سال 18،19اور20محرم الحرام سالانہ عرس پاک کے موقع پر سجادہ نشین دربار عالیہ حضرت امیر السالکین بھیرہ شریف حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ کی زیر صدارت اس نابغہ روزگار ہستی کی خدمات جلیلہ کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ پوری دنیا سے آپ کی ذات گرامی سے محبت رکھنے والے لاکھوں افراد عرس پاک کی محافل میں شریک ہوتے ہیں ۔عر س پاک کی تمام محافل شریعت مطہرہ کے مطابق ہوتی ہیں اور بالخصوص مریدین کی ذہنی و فکری تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔