کسی کو خبر نہ تھی کہ چالیس سال قبل(1980ئ) نکہ کلاں تحصیل پنڈی گھیپ ضلع اٹک سے لاہور وارد ہونے والا ایک سیدھا سادا سا دیہاتی نوجوان‘ ایک نئی تاریخ رقم کر کے اس قدر سرخروئی اورسر بلندی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ میری ان سے اولین ملاقات غالباً اکتوبر 2003ء میں ہوئی جب وہ ’’اوقاف مساجد اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا باقاعدہ حصہ اور لاہور ہوٹل کے عقب میں قادری سلسلے کے عظیم اور معروف بزرگ حضرت شاہ ابوالمعالی کی مسجد کے خطیب تھے۔ ’’مرد حر‘‘ تھے، مقامی نمازی یا محلے دار کی کسی بات کو سوئے ادب جانا اور پھر۔۔۔آگے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وقوعہ ان سے اولین شناسائی کا ذریعہ بنا۔ میرے آفس تشریف فرما ہوئے‘ واقعہ کی تفصیل اور اپنے موقف کی تائید میں قرآن و حدیث کے طویل متن عطا فرمائے اور فرماتے چلے گئے۔ اس کے بعد ان کو کبھی ایوان اوقاف تشریف آوری کی زحمت نہ دی۔ لاہور کے ضلعی خطیب مولانا قاری محمد عارف سیالوی‘ جو کہ حضرت مولانا خادم حسین رضویؒ کے ہمدرم دیرینہ بھی تھے‘ کے سپرد یہ معاملہ مستقل طور پر کر دیا۔ مولانا سیالوی ہی‘ حضرت مولانا رضویؒ موصوف کی اوقاف ملازمت کا سبب تھے۔ اکبوتر 1993ء میں مسجد دربار سائیں کرم الٰہی گجرات میں آپ کی سکیل 7میں بطور خطیب امام تقرری عمل میں آئی، اس کے ساتھ وہ عظیم دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ رضویہ میں شعبہ تدریس کے ساتھ منسلک ہو گئے‘ اپنی بیباک طبیعت اور زور دار طرز تدریس کے سبب طلبہ میں قبول عام حاصل ہوا۔ درسیات کا استاد اگر محنتی ہو تو تدریس کا سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اس کو ازخود فائدہ ہوتا ہے۔ جس کا اظہار علامہ رضوی صاحب کے خطبات میں نمایاں تھا۔ یہ انہی کا خاصہ تھا کہ صرف صغیر اور صرف کبیر سنا کر بھی اپنے سامعین سے داد وصول لیتے تھے۔ بہرحال گجرات سے دربار حضرت شاہ ابوالمعالی اور پھر وہاں سے مسجد دربار حضرت پیر مکی،یہاں کے نمازی بھی جب ان کے متحمل نہ ہو سکے تو آپ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار اقدس کے زیر سایہ جامعہ ہجویریہ میں بطور استاد تقرریاب ہوئے۔ جامعہ ہجویریہ داتا دربار کمپلیکس کی زیریں منزل کو اترتی سیڑھیاں ان کی طبیعت سے مطابقت نہ رکھتی تھی۔ وہ بلند منزلوں کے مسافر تھے۔ ان کی اڑان اونچی اور مقاصد بلند تھے۔ طبی بنیادوں پر ان کی ریٹائرمنٹ کا سامان اور امکان بھی پیدا کیا گیا۔ لیکن انہوں نے ایسی کسی چیز کو لائق اعتنا نہ جانا اور تیزی اور تیز رفتاری کے ساتھ اپنے سفر کی طرف گامزن ہو گئے۔ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اور ملکی جمہوری نظام کبھی بھی دینی اور مذہبی عمائدین اور تنظیمات سے خالی نہیں رہا۔ تحریک پاکستان میں جس دینی طبقہ کو قائد اعظم کے ساتھ ہر اول دستے کا اعزاز میسر تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کی سیاست بتدریج معدوم ہوتی گئی اور یوں ع منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے مولانا شاہ احمد نورانیؒ اور مولانا عبدالستار خاں نیازی کے بعد کسی حد تک صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم اس طبقے کی سیاسی قیادت کے امین رہے۔ مئی 2013ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب، کی رحلت کے بعد پاکستان کی مسلکی اور دینی طور پر غالب اکثریت کی حامل یہ جماعت موثر مذہبی سیاسی لیڈر شپ سے محروم ہو گئی۔ یہ امر اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس خطے کی اکثریت حنفی المشرب اور صوفیا کے ماننے والی‘ مزارات پر حاضری دینے اور یارسولؐ اللہ کے نعرے سے دیوانہ وار محبت کرنے والی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ملکی افق پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کے مختلف ردعمل اور ان میں بطور خاص ممتاز قادری کی پھانسی اور ان سے ابھرنے والی لبیک یارسول اللہ ‘ کی تحریک اور نعرے نے ملکی سیاست اور مذہبی قیادتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور پھر علامہ خادم حسین رضوی بتدریج "ٹاپ ٹرینڈ" بنتے چلے گئے۔ تین سال قبل فیض آباد دھرنے کو" فرنٹ سے لیڈ" کر کے قیادت کی نئی طرح ڈالنے والے مولانا رضوی? پاکستانی مذہبی سیاست میں ایک منفرد مقام کے حامل ہوئے۔2018ء کے عام انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان کے نام سے شامل ہوئے اور لاکھوں ووٹ لے کر طویل سیاسی کیرئر اور جدوجہد کی حامل مذہبی جماعتوں ہی کو ووٹوں کی گنتی میں پیچھے نہیں چھوڑا بلکہ پاکستان کی صف اول کی سیاسی جماعتوں کو بھی مشکل کا شکار کر دیا اور ان کے اس ووٹ بینک نے ملک کے پارٹی توازن کو مختلف کر دیا۔ جس پر تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کی آرا اپنی جگہ۔ مگر سیاسی حوالے سے اس نوزائیدہ جماعت نے وہ میدان مارا جو اس سے قبل ،اس مختصر مدت میں کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ مولانا رضویؒ کی شخصیت کا ایک خاص اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ کسی اہم خاندانی یا روایتی حوالے کے بغیر پروان چڑھے۔ ایک عام طالب علم کے طور پر جامعہ نظامیہ لاہور سے سند حفظ قرآن حاصل کی جہاں آپ کے ممتحن مولانا حافظ ظہور احمد سیالوی جبکہ استاد محمد سلیمان تھے۔ اسی ادارے سے شہادۃ الفراغ من العلوم المتداولہ فی المدرس النظامی‘ شعبان المعظم 1414ھ میں‘ جہاں آپ کے معروف اساتذہ میں سے حضرت مفتی اعظم ‘ مفتی عبدالقیوم ہزاروی‘ مولانا عبدالحکیم شرف قادری، اور علامہ حافظ عبدالستار سعیدی تھے۔ قبل ازیں انہوں نے سند القراۃ و التجوید ‘ بھی جامعہ نظامیہ اندرون لوہاری گیٹ لاہور ہی سے حاصل کی۔ شہادۃ العالمیہ فی العلوم العربیہ والاسلامیہ۔جو کہ سرکاری سطح پر تدریسی تحقیق اور تعلیمی حوالے سے ایم اے عربی اسلامیات کے برابر تسلیم شدہ ہے، سال 1409ھ بمطابق 1988ء درجہ الممتاز‘ جس کی سند انہیں 11ستمبر 1988ربیع الاول 1409ء تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی طرف سے جاری ہوئی۔ انہوں نے روایتی دینی درسیات پڑھنے والے طالب علموں کے لئے اپنے خطبات کے اس پہلو کو بطور مثال چھوڑا، جس میں وہ قرآن و حدیث کے ساتھ عربی‘ فارسی اشعار اور اقتباسات کو سناتے اور داد و تحسین حاصل کرتے۔علامہ اقبال سے ازخود عقیدت کے حامل تھے۔ گزشتہ چند سالوں سے ان کے یوم 9نومبر کے موقع پر مزار اقبال پر حاضری دیتے ور ان کی بارگاہ میں اپنی محبتوں کا خراج پیش کرتے ، اور خود انکے ان اشعار کا مصداق ٹھرے : ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے پھْونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے زندگی کی قْوّتِ پنہاں کو کر دے آشکار تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے