حضرت سید حافظ عثمان مروندی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ المعروف حضرت لعل شہباز قلندر رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ آپ کے تذکرہ نویسوں کے ہاں راجح قول کے مطابق 538ہجری بمطابق 1142 آذربائیجان کے مشہور شہر "مروند" میں پیدا ہوئے اس شہر کو مہمند بھی کہا جاتا ہے بعض حقائق و دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کا اصل نام"مرند" تھا جو بعد میں وائو کے اضافہ کے ساتھ "مروند" کہلایا۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضر ت امام جعفر صادق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے ۔ (منقول تحفہ الکرام، لب تاریخ سندھ، تعارف ہندی، خزینہ الاصفیا) آپ کا نام آپ کے والد محترم سید ابراہیم کبیر الدین رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے "محمد عثمان "رکھا جس کا اذن اور حکم خواب میں سید نا علی المرتضی کرم اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دیا اور فرمایا جب محمد عثمان المعروف لعل شہباز قلندر رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ 384یوم کے ہو جائیں تو مدینہ منورہ حاضری دینا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس بارگاہ میں حاضری دینے کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مزار پر جنت البقیع میں سلام پیش کرنا ۔چنانچہ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور حضرت لعل شہباز قلندر رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے لیے نیکی و پاکبازی اور زہدو تقویٰ کی دعا کی۔ سید محمد عثمان رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے معروف نام لعل شہباز قلندر کا جائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ آپ لال رنگ کپڑے پہنتے تھے جس کی نسبت آپ سید الشھدسید نا امام حسین علیہ السلام کی طرف کرتے تھے کیوں کہ سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے لال لباس کو زیب تن کیا جس کا ذکر مولف تذکرہ الانساب نے بھی دیا۔بعض روایات کے مطابق ’’لعل ‘‘ایک قیمتی اور نایاب پتھر کو بھی کہتے ہیں جس کی چمک آنکھوں کوخیرہ کر دیتی ہے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کا چہرہ ’’ لعل‘‘ پتھر کی طرح چمکتا دمکتا اورجاذب نظر تھا اس لیے ’’لعل ‘‘کہلائے ۔’’شہباز‘‘ دو لفظوں کا مرکب ہے ’’شہہ اور باز‘‘ شہہ کا مطلب سردار اور باز کا مطلب اڑنا کے ہیں مجموعی لفظ کو دیکھیں تو ’’ہوا میں اڑنے والوں کا سردار‘‘ ہے ۔ گویا آپ نے زہد و تقویٰ اور تصوف کے میدان میں اتنی محنت کی کہ شہباز کہلائے اور قلندر کا لقب آپ کو اس لیے ملا کہ آپ اپنی تمام نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذات کو چھوڑ کر مستغرق با ﷲ ہو گئے ۔ ہر دن اﷲ کی عبادت اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں گزارا۔ قلندر لفظ کی وسعت اور گہرائی سمندر کی گہرائی اور وسعت کی مثل ہے جس کی توضیح اور بحث یہاں مقصود نہیں ہے ۔ آپ کے والدنہایت پرہیز گار انسان تھے سنت نبوی کی مکمل اتباع اور پیروی کرتے تھے ۔ یاد الٰہی کے جذبات ہمیشہ ان کے چہرے پر نمایاں ہوتے تھے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ حاکم مروند سید سلطان شاہ کی بیٹی تھیں جو نیک ، عباد ت گزار اور پاکباز خاتون تھیں۔ حضرت لعل شہباز قلندر رحمۃ اﷲ علیہ کی طبیعت میں درویشی، قناعت، استغنا اور تصوف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جو آپ کے عظیم والدین کی تربیت کا نتیجہ تھا ۔بچپن ہی سے دینی علوم اور قرآن پاک کی طرف رغبت تھی ۔چھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنا شروع کیا اور سات سال کی عمر میں مکمل حفظ کر لیا ،عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ مروجہ دینی علوم بھی پڑھ لیے ۔مگر علمی تشنگی کو بجھانے کے لیے رخت سفر باندھنا چاہتے تھے مگر والدہ ماجدہ کی محبت اور خدمت نے سفر سے باز رکھا 18سال کی عمر میں والد محترم اور 20سال کی عمر میں والدہ ماجدہ انتقال فرما گئیں۔ والدہ کی جدائی میں بہت غمگین رہتے مگر قلندرانہ شان نے صبر ، رضا اور توکل عطا کیا۔ حضرت لعل شہباز قلندر رحمۃ اﷲ علیہ اکتساب فیض کے لیے طویل عرصہ تک مختلف ممالک میں اولیائے کاملین کے مزارات اور مجالس میں بیٹھتے رہے ۔ آپ نے باطنی علوم میں کمال حاصل کرنے کے لیے حضرت سید ابراہیم قادری رحمۃ اﷲ علیہ کو مرشد چنا۔ حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ نے خواب میں بشارت کی کہ (عثمان) تم ہمارے قلندر ہو اب تم مکہ مکرمہ جائو اور بیت اﷲ کے طواف کا شرف حاصل کرو آپ نے حکم کی تعمیل کی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفر کیا۔ بیت اﷲ اوردر رسول پر حاضری دے کر صوفی اور سالک کے حقیقی رتبے پر فائز ہوئے پھر واپس دربار غوث اعظم رضی اﷲ عنہ میں حاضر ہوئے ۔پھر ایران و مکران کا سفر کیا اس کے بعد ہندوستان تشریف لائے سب سے پہلے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ کے مزرا پر حاضری دی اور باطنی فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے پھر حضرت قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت بو علی قلندر سے اکتساب فیض کیا اور ملتان تشریف لائے ملتان میں حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت بہائو الدین زکریا، حضرت صدر الدین عارف اور حضرت جلال الدین بخاری جہاں گشت رحمۃ اﷲ علیہم سے مسلسل ملاقاتیں رہیں اور پھر سیہون شریف سندھ تشریف لائے ۔ حضر ت لعل شہباز قلندر رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ بے شمار کشف و کرامات منسوب ہیں روایات میں ملتا ہے کہ آپ جب سیہون شریف تشریف لائے وہاں فاحشہ عورتو ں کا اڈا تھا آپ کی تبلیغ سے لوگ آپ کی طرف مائل ہوئے تو ان کا کاروبار بند ہو گیا فاحشہ عورتیں آپ کے پاس آئیں تو آپ کی دعا سے ان کی دنیا بدل گئی اور انھوں نے ہمیشہ کے لیے تائب ہو کر نیکی کا راستہ اختیار کیا۔ منقول ہے کہ سندھ کے ظالم راجہ جس کا نام "چوپٹ راجہ"تھا آپ کے مرید حضرت بودلہ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کو ہندو قصابوں کے ہاتھوں ذبح کروایا اور دیگ میں ان کے گوشت کا سالن پکوایا حضرت لعل شہباز قلندر تشریف لائے آپ نے حضرت بودلہ رحمۃ اﷲ علیہ کو آواز دی تودیگ سے گوشت کی بوٹیاں نکل کر آپ میں جڑتی گئیں اوروہ زندہ ہو کر آپ کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو گئے ۔ چوپٹ راجہ نے ایک دفعہ آپ کو تنگ کرنے کے لیے بلی کا سالن بھیج دیا آپ جلال میں آگئے آ پ نے سالن والے برتن کو الٹا کیا تو چوپٹ راجہ کا قلعہ بھی ساتھ الٹا ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ اس الٹے قلعے کے آثار آج بھی موجود ہیں۔اسی طرح ایک مرتبہ وضو سے قبل مسواک کر رہے تھے ایک مرید نے کہا کہ حضرت اگر یہاں سایہ دار درخت ہوتا تو کتنا بہتر تھا آپ نے اس مرید کو حکم دیا کہ میری مسواک کو سیدھا زمین میں گاڑ دو اس مرید نے حکم کی تعمیل کی اور دوسرے دن دیکھا تووہاں ایک تناور درخت بن چکا تھا۔ آپ صاحب کرامت ولی تھے بے شمار کرامتیں آپ سے ظاہر ہوئیں آپ نے اپنی تبلیغ و کرامات سے ہزاروں لوگوں کو مسلمان کیا اور دینی علوم سے آبیاری کی۔آپ 21شعبان المعظم659ہجری کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے آپ کی تاریخ وفات میں بھی محققین نے اپنی جستجو اور تلاش کے مطابق رائے قائم کی ہے آپ کا مزار اقدس سیہون شریف سندھ میں ہے جو مرجع خاص و عام ہے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ