’’حضرت ابو یحییٰ مالک بن دینا ررحمۃ اللہ علیہ ‘‘ کی شخصیت اَرباب علم ومعرفت کے نزدیک کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ کے مصاحب اور مریدہیں، اما م نسائی وغیرہ نے آپ کی توثیق فرمائی ہے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ’’دینار‘‘ایک غلام تھے اُنہی ایام میں اِ ن کی ولادت ہوئی ۔ظاہری اعتبار سے گو آپ غلام زادے ہیں لیکن باطنی طور پر بالتحقیق آپ اہل تصوف کے عظیم مشائخ میں شمار ہوتے ہیں ،آپ اپنے زمانے میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ،آپ کی قناعت پسندی کا عالم یہ تھا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے ،کتابت ِقرآنی آپ کا پیشہ تھا آپ قرآن کریم کے ماہر زرنگاروں میں سے ایک تھے ۔حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کا واقعہ یوں ہے : ایک رات آپ ایک محفل رقص و سرور میں موجود تھے جب سب لوگ سو گئے تو طنبورے سے جیسے بجایا جارہاتھا ، آواز آئی ’’یَامَالِکُ مَالَکَ اَنْ تَتُوْبَ‘‘’’ اے مالک کیا بات ہے تو بہ میں دیر کیوں ‘‘ یہ واقعہ آ پ پر اسی قدر اثر انداز ہوا کہ آپ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سچی توبہ کرتے ہیں اور اسی پر ثابت قدم رہتے ہیں ۔اس واقعہ کے بعد سیدنا داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اپنے چل چلن کی اصلا ح اس درجہ کی کہ ایک دن مالک بن دینا ررحمۃ اللہ علیہ کشتی میں لوگوں کے ساتھ جار ہے تھے کہ کسی کا ایک نگینہ جواہرات کا گم ہوگیا ،سب کی طرف نظر ڈالی ، حضرت مالک بن دینار حمۃ اللہ علیہ ہی سب میں اجنبی نظر آئے آپ رحمۃ اللہ علیہ پر اِ س نگینہ کی چوری کا الزام لگ گیا ،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی کہ یک لخت تمام دریا کی مچھلیاں دریا سے منہ نکالے ہوئے نظر آئیں ،اور دیکھا کہ ہر مچھلی کے منہ ایک ایک نگینہ ہے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نگینہ لے کر اُسے دے دیا اور خود کشتی سے سطح آب پر اُتر کر کنارہ پر تشریف لائے اور دریاسے باہر ہوگئے ۔‘‘ ( کشف المحجوب : صفحہ209,210) آ پ کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری حسن وجمال کے ساتھ باطنی کمالات سے بھی خوب نوازا تھا ،انابت اور رجوع الی اللہ آپ کا معمول تھا ، آپ دمشق کی جامع مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور ایک مرتبہ دل میں خیال گزرا کہ مجھے اس مسجد کا متولی بناد یا جائے چنا نچہ ایک نے اسی نیت سے عباد ت وریاضت پر خوب توجہ دی ہمہ وقت مشغول عبادت رہتے کہ لوگ دیکھ کر انہیں مناسب خیال کرتے ہوئے منتخب کریں گے مگر سال بھر کسی نے ان کی طرف توجہ بھی نہ دی ۔ ایک سال کے بعد ندائے غیبی آئی کہ ایک مالک تجھے اب توبہ کرنی چاہیے ۔ آپ اپنے کئے پر بہت شر مندہ ہوئے اور ریا کاری ودکھلا وے کو چھوڑ کر خلوص سے عباد ت کرنا شروع کر دی ایک رات ہی گزاری تھی کہ صبح مسجد میں لوگ اکٹھے ہوکر کہنے لگے کہ مسجد کا انتظام ٹھیک نہیں لہٰذا اِس شخص کو متولی بنا یا جائے ۔تمام لوگ متفق ہوکر آپ کے پاس آئے اور گزارش کی تو آپ بارگاہ ربو بیت میں گڑ گڑ اتے ہیں کہ اے اللہ میں نے ایک سال تک دکھلاوے کی عبادت کی کہ یہ لوگ مجھے متولی بنادیں مگر ایسا نہ ہوا اب جبکہ میں خلوص نیت سے تیری عبادت کر رہا ہوں تویہ لوگ میرے پاس آ بھی پہنچے لیکن میں تیری عظمت کی قسم کھا تا ہوں کہ نہ تو میں اب تولیت قبو ل کروں گا اور نہ ہی مسجد سے باہر نکلوں گا، یہ کہہ کر آپ عبادت میں مصروف ہوگئی ۔ ( تذکرۃ الا ولیا: صفحہ 28-27 ) بارگاہ ِ رب العزت میں آپ کی مقبولیت کا اندازہ آپ کی زندگی کے مشہور واقعہ سے ہوتا ہے ،آپ کے سوانح نگار لکھتے ہیں :’’ایک دن ایک دہریہ آ پ سے منا ظرہ کر تے ہوئے کہتا ہے میں حق پر ہوں آ پ نے فرمایا:’’ میں حق پر ہوں ‘‘یہ بات طول پکڑ گئی تو حکام وقت نے نے فیصلہ کیا دونوں کا ہاتھ آگ میں ڈالیں جس کا ہاتھ جل گیا وہ با طل پر اور جس کا بچ گیا وہ حق پر۔ ہاتھ آ گ میں ڈالے گئے دونوں کے ہاتھ نہ جلے ، دونوں کے حق میں فیصلہ ہو گیا آ پ بہت رنجیدہ ہوئے ، سجدہ میں سررکھ کر روئے عرض کیا :’’ اے اللہ میں اسے دہریے بے دین کے برابر ہوگیا ۔ ‘‘آ واز آئی اے مالک افسردہ خاطرنہ ہو یہ تیرے ہاتھ کی برکت سے ہی اسکا ہاتھ بچا ہے وہ تنہا ہاتھ ڈالتا تو جل جاتا ۔ آ پ ایک مرتبہ سخت علالت کی حالت میں بازار سے گزر رہے تھے ۔ اتفا قا بادشاہ کی سواری بھی گزر رہی تھی درباری لوگوں کا ہٹا رہے تھے آ پ کو ہٹنے میں دیر ہو گئی ایک پہرہ دار سے آ پ کو کوڑا دے مارا آپ کے منہ سے درد کی شد ت کی وجہ سے نکل گیا ’’تیرے ہاتھ کٹیں‘‘ چنانچہ دوسرے روز ہی اس کے ہاتھ کٹوا کر چوراہے میں ڈلوا دیئے گئے ۔ لیکن آ پ اس بات پر کبیدہ خاطر تھے ۔ (تذکرۃ الاولیا: 29-28 ) ایک مرتبہ آپ کسی درخت کے سایے میں آ رام کر رہے تھے چشم دید گواہ بتا تے ہیں کہ ایک سانپ نر گس کی شاخ سے آپ کو ہوا دے رہا تھا۔ (تذکرۃ الاولیا: 29-28 ) ‘‘ ہشام بن حسان فرماتے ہیں :’’ میں اور مالک بن دینار حضرت امام حسن بصری (رحمتہ اللہ علیہما) کے پاس گئے ۔ وہاں ایک شخص سورہ طور کی تلاوت کر رہا تھا جب اس نے یہ آیت پڑھی:’’ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَا قِعٌ،مَالَہُ مِنْ دَافِعٍ‘‘تو امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ رو پڑے اور آپ کے رفقا بھی رونے لگے اور مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ پر بہت زیادہ اضطرابی حالت میں تھے حتیٰ کہ اس خوف خدا میں بے ہو ش ہو گئے ۔ محدث ابو نعیم نے آپ کو اجلہ تابعین سے شمار کیا ہے آپ نے حضرت سیدنا حسن بصری ، امام محمد بن سیرین ، سیدنا قاسم بن محمد ،سیدنا سالم بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین سے متعدد احادیث روایت کی ہیں ۔ 14صفر المظفر 128ہجری کو آپ کا وصال ہوا ، بعد از وفات ایک بزرگ نے آ پ کو خواب میں دیکھا اور پو چھا کہ اللہ تعالیٰ نے آ پ کے سا تھ کیا معا ملہ فرمایا ہے ، فرما یا : اپنے تمام گنا ہوں کے با وجود میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشر ف ہوا۔ اس لیے کہ میرا اللہ کے بارے میں یہ حسن ظن تھا کہ وہ مجھے بخش دے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے میرے اس حسن ظن کی وجہ سے مجھے معا ف فر ما دیا ۔ (تذ کرۃ الاولیا صفحہ 32 )