دُشنام طرازی ‘ہیجان انگیزی اور بلند وبانگ دعووں کی گُونج کے بعد بالاخر مرکز میں مخلوط حکومت قائم ہوچکی ۔ اتحادی جماعتوں کے مطالبات اور تحفظات کے بعد 34رکنی کابینہ کی تشکیل بھی ہوچکی۔ مخلوط حکومت اور اپوزیشن کے مابین کرپشن الزامات کی جنگ تو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ۔وزیراعظم سمیت بیشترکابینہ ارکان عدالتوں سے ضمانت پرہیں تو سابق وزیراعظم عمران خان توشہ خانہ اسکینڈل کی زد میں۔ ملکی تاریخ میںسیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات اور مقدمات کا سلسلہ کبھی نہیں تھما۔کرپشن الزامات اور پولیٹیکل پولرائزیشن کی خوفناک فضا کے دوران معاشی چیلنجز کا ادراک شاید بہت کم لوگوں کو ہے۔ نئی مخلوط وفاقی حکومت کو درپیش سنگین معاشی چیلنجز کا انداز ہ گذشتہ روز وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس کے ایجنڈے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 7 نکاتی ایجنڈے میں چار آئٹمر توانائی اور معاشی صورتحال سے متعلق تھے۔کابینہ اجلاس میں توانائی اور معاشی صورتحال سے متعلق ہوش رُبا رپورٹس پیش کی گئیں۔ڈالر نے ایک مرتبہ پھر اُڑان پکڑ لی ہے۔ قرض پر چلنے والی معیشت میں صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت برقرار رکھنے کے باعث قومی خزانے کو ماہانہ 180ارب روپے سے زائد نقصان پہنچ رہا ہے۔یہ نقصان کسی بھی وقت خوفناک معاشی تباہی کا موجب بن سکتا ہے۔ ماضی میں توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے پاورپالیسی 2002تیار کی گئی مگر بدقسمتی کیساتھ قومی مفادکی بجائے پاور پلانٹس لگانے والے مالکان کو ناقابل یقین حد تک منافع دینے کی راہ ہموار کرد ی گئی۔ یہ پالیسی انہی لوگوں نے تیار کرواکر وزارت پانی وبجلی کو ارسال کی تھی جنہوں نے پاور پلانٹس لگانے تھے۔پاور پلانٹس کی تنصیب مکمل ہوئی تو گیس کی قلت پیدا ہوگئی ۔ حکومت نے دومزید ایل این جی ٹرمینل لگانے کا فیصلہ کیا ۔ ان ٹرمینلز سے درآمدی گیس کراچی سے لاہور لانے کیلئے 1ارب 50کروڑ کیوبک فٹ یومیہ صلاحیت کی پائپ لائن کی ضرور ت پیش آئی لہذا2020ء بین الحکومتی بنیادوں پر روس کیساتھ مل کر پائپ لائن تعمیر کرنے کافیصلہ کیا گیا۔روسی کمپنی میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ایک اہم پاکستانی شخصیت نے بھرپور لابنگ شروع کردی۔ وزارت توانائی کے حکام کو قائل کیا گیا کہ یہ منصوبہ روسی کمپنی کی تجویزکردہ لاگت پر ہی روس کو ایوارڈ کیا جائے اور اب اس منصوبے کی لاگت جو 2015ء میں ڈیڑھ ارب ڈالرتھی اب اڑھائی ارب ڈالر ہوگی ۔تین سالوں میں منصوبے کی لاگت میں 1ارب ڈالر اضافے نے پیٹرولیم ڈویژن کے حکا م کو پریشان کردیا ۔ کچھ سرکاری افسران کو اندازہ ہوگیاتھا کہ یہ معاملہ کسی اور جانب بڑھ رہاہے۔ یہ پائپ لائن منصوبہ ماضی کے منصوبوں کی طرح عوام اور قومی خزانے پر بھاری بوجھ بننے جارہا ہے۔ اسی اثناء میں سپریم کورٹ نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج وصولی کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمی نے وزارت توانائی کی سرزنش کرتے ہوئے قرار دیا کہ مختلف گیس صارفین سے وصول ہونیوالی گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی رقم قانون کے مطابق صر ف توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہوسکتی ہے۔ 300ارب روپے سے زائد رقم جمع ہوچکی مگر توانائی کے منصوبے پر خرچ نہیں کی گئی۔ روسی کمپنی کے حکام نے وزارت توانائی کو پھر قائل کرلیا کہ 70فیصد سرمایہ پاکستان جبکہ 30فیصد روسی کمپنی فراہم کرے گی مگر شرط یہ ہوگی کہ پائپ کی تعمیر میں روسی کمپنی بطور انجینرنگ‘پروکیورمنٹ اینڈ کسنٹرکشن(ای پی سی)کنٹریکٹر کے طور پر کام کرے گی۔ یہی نہیں بلکہ پائپ لائن تعمیر ہونے کے بعد آپریٹ بھی روسی کمپنی کرے گی۔بالاخر2021ء میں معاہدے پر دستخط ہوئے مگر قومی اہمیت کے حامل اس منصوبے پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ سوئی نادرن گیس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی تا لاہور گیس پائپ لائن دو ارب 70 کروڑ ڈالر میں نہیں بلکہ صرف ایک ارب ڈالر میں تعمیر کی جاسکتی ہے جس میں سوئی نادرن گیس کمپنی کو 25 فیصد منافع بھی ملے گا۔سابق ایڈیشنل سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں یہ منصوبہ ایک ارب ڈالر کی لاگت میں تعمیر کرنے کیلئے سپیشل نوٹ بھی تحریر کیا تھا جس کی پاداش میں انہیں عہدے سے ہٹادیا گیاتھا۔ پیٹرولیم ڈویژن کے ماتحت پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے درآمدی گیس کی خریداری کیلئے دو غیرملکی کمپنیوں ای این آئی اور گنور کیساتھ معاہدہ کیا گیا تھا۔ عالمی مارکیٹ میں ایل این جی کی قیمت میں اضافہ شروع ہو ا تو دونوں کمپنیوں نے ایل این جی کارگو معاہدے کے مطابق پاکستان کو فراہم کرنے کی بجائے عالمی مارکیٹ میں فروخت کردئیے ۔ یہ پریکٹس گذشتہ ایک سال سے جاری ہے جس کے باعث پاکستان کواربوں روپے کا معاشی نقصان ہوا۔ اب پیٹرولیم ڈویژن نے ای این آئی او ر گنور کے خلاف معاہدہ کی خلاف ورزری پر48ارب روپے ہرجانے کی کارروائی کیلئے لندن کی بین الاقوامی ثالثی عدالت (LCIA) سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔حیرت انگیز طور پرای این آئی نے پہلے ہی پاکستان میں اپنے اثاثے تقریباً 100 ملین امریکی ڈالر کی کم قیمت پر فروخت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت سے اپنی بینک گارنٹی واپس لینے کا مطالبہ کررکھا ہے۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ای این آئی کے اثاثوں کے کنٹرول کو ایک نئی پاکستان فرم کو اس وقت تک روک دیا جائے جب تک پاکستان ای این آئی سے ایل این جی کی عدم فراہمی کے باعث اپنے نقصانات کی وصولی نہیں کر لیتا۔پاکستان کو اربوں روپے کے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اینی اور گنور سے ایل این جی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو بجلی پیدا کرنے کے مقاصد کے لیے وسیع ایندھن کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ دونوں کمپنیوں کے ڈیفالٹ نے پاکستان کو اسپاٹ مارکیٹ سے 25.12 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (MMBTU) کی بھاری قیمت پر ایل این جی خریدنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کمزور پالیسی‘ یکطرفہ معاہدوں اور مہنگے منصوبوں کے باعث عوام اورقومی خزانہ مزید بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔اقتدار کے حصول کیلئے سیاسی منافرت ملک کو تباہی کی جانب لے جائے گی۔ملکی سیاسی قیادت کو باہمی نفرت اور سیاسی عصبیت کو ختم کرتے ہوئے ایک ٹیبل پر بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے اس سے پہلے کہ سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوجائیں۔