کوئٹہ میں خطاب فرمانے کے بعد بزرگ ایران تشریف لے گئے۔وہاں تہران میں بزرگوں کی لسانِ صدق نشان نے یہ بیان جاری فرمایا کہ ایران میں ہونے والی دہشت گردی پاکستان سے آپریٹ ہوتی ہے بخدا بزرگوں کے مرشد ثانی پرویز مشرف کی یاد بے ساختہ آئی۔ وہ ایک بار کسی باہر کے ملک گئے اور یہ اعلان کیا کہ دہشت گردی دنیا میں جہاں بھی ہو،کھرا پاکستان ہی کو آتا ہے۔ غنیمت ہے، بزرگوں نے ایران کے بعد پاکستان واپسی کی راہ لی، کہیں سری لنکا کے دورے پر نہیں نکل گئے جہاں تین روز پہلے ہی دہشت گردی کی بڑی واردات میں سینکڑوں افراد مارے گئے، سینکڑوں ہی زخمی ہوئے۔ بزرگوں کے ساتھ دورے میں وزیر خارجہ نہیں تھے کیونکہ ایک روز قبل وہ ایران پر انگلی اٹھا چکے تھے اس لیے ان کا جانا بنتا نہیں تھا لیکن اچھا ہوتا کہ وزیر اعجاز شاہ کو ساتھ لے جاتے۔ بات میں مزید ون آ جاتا۔ ٭٭٭٭٭ دورے سے ایک دن پہلے کوئٹہ میں خطاب کے دوران آپ نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ وہ پانچ سال سے نواز شریف کو چور ڈاکو کہتے آ رہے ہیں اور اگلے پانچ سال بھی یہی شغل جاری رکھیں گے۔ ماشاء اللہ، خدا برکت دے۔ ویسے یہ عزم دہرانے کی ضرورت کیوں پڑی! نصیب دشمناں، خاکم بدہن کسی نے آپ کو ایسا کرنے سے روکا ہے؟ آپ اپنا یہ یک نکاتی ایجنڈا مزید پانچ سال جاری رکھیے کوئی روک ہے نہ ٹوک۔ البتہ لوگوں کا یہ ہے کہ وہ اسے لطیفہ سمجھنے لگے ہیں اور پاکستانی معاشرہ خیر سے پرانے لطیفوں پر سر دھننے یا ان سے درگزر کرنے، دونوں کا ماہر ہے۔ کہیں سے ایک آدھ ثبوت کرپشن کا لے آتے تو لطیفے میں سچ کی چاشنی بھی آ جاتی لیکن لگتا ہے، چاشنی ہماری قسمت میں نہیں۔ بزرگوں کے ایک ممنون احسان نے بھی اس ہفتے یہی رونا رویا ہے۔ انہیں بزرگوں نے دو ماہ پہلے ہی کراچی کی برق رساں کمپنی کی سپرداری دی ہے۔ اس ہفتے اپنے کالم میں انہوں نے اظہار تاسف کیا کہ آمدنی اثاثوں کے فارمولے کے تحت نوازشریف کو سزا تو ہوگئی۔ بہت اچھی بات ہے لیکن کرپشن کا کوئی ثبوت ابھی تک نہیں مل سکا جس کی وجہ ناقص عدلیاتی نظام اور کرپٹ بیورو کریسی ہے۔ وہی بات ہو گئی کہ ’’ناچن تو ہم بہت اچھی طرح سے جانت ہوں پر کیا کروں، یہ نگوڑا منچ ہی دیکھو تو کتنا ٹیڑھا میڑھا رھت اس پر کوئی کیا خاک ناچ سکتا ہے‘‘۔ ٭٭٭٭٭ صدارتی نظام کی بحث پر ’’القط‘‘ لگانے کی کوشش ہوئی ہے اور کوشش اس کی طرف سے ہوئی ہے جس کی طرف سے اس کی توقع کسی ’’ہوشمند‘‘ کو ہو ہی نہیں سکتی۔ جی ہاں اپنی لال حویلی کے راجہ جی کی طرف سے۔ فرمایا، غیر ضروری بحث ہے، پاکستان پارلیمانی نظام ہی سے چل سکتا ہے۔ شیخ جی نے یہ ’’القط‘‘ لگانے کی کوشش کیوں کی؟ وہ تو ایوب خان کے زمانے سے اسلامی صدارتی نظام کے حامی رہے ہیں۔ کیا ان کے ذہن کی کایا کلپ ہو گئی، ناممکن، لگتا ہے یہ ’’خبر‘‘ وہ کوہ اولمپس سے لائے ہیں۔ کہیں نہ کہیں دیوتائوں نے سوچا ہے کہ فی الحال یہ والا پنڈورا باکس نہ ہی کھولو، جو اتنے سارے پہلے سے کھل گئے ہیں، انہی سے کھیلو۔ یا پھر کہیں یہ کسی نہ کسی کو بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ یہ کھیل آخری ثابت ہو گا۔ شتر وجود کی کمر پر پتھر کی آخری سل۔ اس کے بعد کچھ نہیں بچے گا، بس یادِ شتر رہ جائے گی۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ دو مہینوں کے دوران پنجاب میں جرائم 25فیصد کے قریب بڑھ گئے۔ جرائم کی فہرست میں قتل اغوا،ڈکیتی، چوری اور گاڑیاں چھیننے وغیرہ شامل ہیں۔ حکومت کو جب چھ ماہ ہوئے تھے، تب خبر آئی تھی کہ جرائم میں پندرہ فیصد اضافہ ہو گیا۔ اب مزید دو ماہ بعد شرح دس فیصد اور بڑھ گئی۔ ’’گویا‘‘ تبدیلی، کی رفتار تیز تر ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق بچوں کے اغوا اور قتل کی وارداتوں میں بھی غیر مناسب اضافہ ہوا ہے۔ دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے لیکن صاحب انصاف کیا کہے گا۔ یہی کہ روک سکو تو روک لو…تبدیلی آئی رے۔ ٭٭٭٭٭ اسد عمر مطلوبہ اہداف پوری طرح حاصل نہیں کر سکے؛چنانچہ ان کی جگہ حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا ہے۔ ان کی صلاحیتیں اسد عمر سے کہیں بڑھ کر ہیں، وہ یہ ثابت بھی کر چکے۔ 2007ء کے انتخابات کے بعد زرداری صاحب نے انہیں وزیر خزانہ بنایا(غالباً 2010ء میں)۔وہ مختصر عرصے میں افراط زر اور مہنگائی کی شرح بڑھا کر 14فیصد پر لے گئے جو ایک محیرالعقول کامیابی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کی حکومت میں اسحاق ڈار نے ان کی ساری محنت اور کامیابیوں پر پانی پھیر دیا اور یہ شرح کم کر کے 3فیصد پر لے آئے۔ اسی طرح آپ گروتھ ریٹ کو اس کی اوقات میں لائے اور اسے 2.1فیصد پر لے آئے۔ افسوس کہ اس کامیابی پر بھی اسحاق ڈار نے پانی پھیر دیا اور بڑھا کر 5.8کی نا مناسب شرح تک لے گئے۔ اب آپ دوبارہ تشریف لائے ہیں تو بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ آپ نے کامیابی کی جو شرح، جہاں چھوڑی تھی، وہیں سے سلسلہ بحال کریں گے اور مہنگائی کی جو شرح اسد عمر بڑی مشکل سے دس فیصد پر لے کر آئے اور تھک گئے، اسے اوپر اٹھائیں گے اور صرف 14فیصد تک لے کر نہیں چھوڑیں گے بلکہ مزید بلندیاں عطا کریں گے۔ ڈالر کی شان بھی مزید بڑھائیں گے۔گروتھ ریٹ کی عالمی اداروں نے اڑھائی پونے تین فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے لیکن یہ پیش گوئی اسد عمر کی محدود صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کی گئی تھی۔ اب لامحدود قابلیتوں والے حفیظ شیخ آ گئے ہیں تو پیش گوئی کا تخمینہ بھی از سر نو لگانا پڑے گا۔ امکانِ غالب ہے کہ گروتھ ریٹ کو اس کی اصل اوقات، ایک ڈیڑھ فیصد پر لانے کا ہدف لامحدود قابلیتوں والے حفیظ شیخ آسانی سے حاصل کر لیں گے کہ یہی تو ہے مطلوب و مقصود مومن۔ ٭٭٭٭٭ ایک معاصر نے خبر دی ہے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اب موچیوں، نائیوں، دھوبیوں، سموسے، پکوڑے اور قلفیاں بیچنے والوں، چائے فروشوں پر بھی ٹیکس لگے گا۔ یہی نہیں، دیگر اسی قسم کے کام کرنے والے، پھیری، ریہڑی اور خوانچے سر پر رکھ کر سودا بیچنے والے بھی مشرف بہ ٹیکس کیے جائیں گے۔