کوئی نام آنکھوں میں اس طرح روشنی پیدا کرتا ہے جیسے رات کی طویل تاریکی کے بعد مشرق میں نور نکھرنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام ایک ایسا نام ہے۔ وہ شخص اب ہم سے بچھڑ چکا ہے ۔ اس کے بچھڑنے پر کوئی شور برپا نہیں ہوا۔ میڈیا نے اس طرح بریکنگ نیوز پیش نہیں کی جس طرح کسی نیب کے ڈر سے خودکشی کرنے والے شخص کی خبر پیش کی جاتی ہے۔ جس خبر کے حوالے ماہرین سے معلوم کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات سے ملک کے سیاسی حالات پر کس طرح کے اثرات مرتب ہونگے؟مگر ڈاکٹر جالبی صاحب اس دنیا سے اس طرح گئے جس طرح صبح کی سرخی میں چاند غروب ہوجاتا ہے۔ ان کے جانے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف تو کیا تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے بھی افسوس کا اس طرح اظہار نہیں ہوا جس طرح ایک باشعور اور باضمیر معاشرے میں ہونا چاہئیے۔ایسے لوگ تو معاشرے کا اصل حسن ہوتے ہیں۔ معاشرہ ماڈل گرلز سے خوبصورت نہیں بنتا۔ معاشرہ آسمان کو چھوتی ہوئی عمارات سے وجود میں نہیں آتا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتا نہیں جہاں پیدا‘‘ معاشرے کی بنیاد میں جب علم اور فکر کی طاقت جمع ہوتی ہے تب معاشرہ مضبوط ہونے کے احساس سے ہم آغوش ہوجا تا ہے۔ اگر مجھے ڈاکٹر جمیل جالبی کے بارے میں چند الفاظ لکھنے ہوں تو میں یہ ہی لکھ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر جالبی صاحب قدیم علم اور جدید فکر کے سنگم تھے۔ ان کی ابدی جدائی ہمارے جیسے ملک کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ علالت کے باعث لکھنے پڑھنے سے دور تھے مگر پھر بھی ان جیسے علماء کا موجود ہونا بھی اس معاشرے کے لیے بڑی بات جو معاشرہ دن بہ دن اوپر اٹھنے کے بجائے نیچے جا رہا ہے۔جمیل جالبی کی جدائی بہت افسردہ کردینے والی خبر ہے ۔ یہ خبر صرف اس لیے دل خراش نہیں کہ اب ہم اس شخصیت سے محروم ہوچکے ہیں جو علم اور ادب کی قندیل تھے۔ان کے جانے سے جس افسوس کے پیدا ہونے کی میں بات کر رہا ہوں کہ افسوس ہے اب ہم ان جیسے علماء سے کس قدر محروم ہوچکے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ جب کوئی عالم؛ ادیب اور شاعر حقیقی سفر کی راہ اختیار کرتا تھا تو اس کو الوداع کہنے والے قافلے میں بہت سارے ننھے منے چراغ ہوتے تھے۔ وہ چھوٹے چھوٹے چراغ سورج کی کمی تو نہیں بھر سکتے تھے مگر جہالت کے اندھیرے کو کسی حد تک ختم کرنے کی کوشش ضرور کرتے تھے۔ یہ دور وہ دور نہیں جس دور میں برصغیر اور خاص طور دلی اور لکھنو میں شعر و سخن کی محفلیں شمعدانوں کے مانند روشن رہتی تھیں۔ اس دور کو دیکھ کر مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جس طرح غدر کی ناکام بغاوت کے بعد دلی کی افسردہ گلیوں سے کسی شاعر کی میت نکلتی تھی تو وہ بھی ایک اداس اور خاموش شام کا منظر پیش کرتی تھی۔ اب ہم اس دور میں زندہ ہیں جس دور میں علم و ادب کی اہمیت کو اس طرح محسوس نہیں کیا جا رہا جس طرح ہمارے ماضی میں وہ اہم تھا۔اب ہمارے علم اور ہماری معلومات میں وہ گہرائی نہیں جو کبھی ہماری پہچان تھی۔ اب ہم اہل علم اور اہل ادب کو ان کی قلمی کاوشوں اور ان کی گراں قدر کتابوں کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کے عہدوں کے حوالے سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ میڈیا کے موجودہ دور کے اسٹارز ان ستاروں کے بارے میں کتنا جانتے ہیں جنہوں نے صرف روشنی سے ہماری راتوں کو منور نہیں رکھا بلکہ انہوں نے تاریخ کے راستوں پر ہماری رہنمائی بھی کی۔اب ہم سطحی سیاست اور اس میڈیا کے اسیر ہوچکے ہیں جو قربانی سے آشنا نہیں۔ جس میں جذبات کی توہین ایک عام بات بن گئی ہے۔ مگر اس ریگستان میں کہیں کہیں ایسے نخلستان بھی ہیں؛ جن میں پہنچ کر صرف تھکاوٹ ختم نہیں ہوتی مگر اس بات کا احساس بھی ہوتا ہے کہ ہمارے گرد کس قدر ویرانی ہے۔ ہمارے دور کی الیکٹرانک میڈیا تو اس قدر تیز رفتار ہے کہ پیچھے رہ جانے والی خبروںکے بارے میں کچھ یاد نہیں رہتا اور اب تو پرنٹ میڈیا سے وابستہ اخبارات کا مزاج بھی جدید دور سے متاثر ہوا ہے۔ اب وہ بڑی سی بڑی خبر کو محض چند دنوں تو اپنادامن پیش کرتے ہیں مگر یہ ’’روزنامہ 92‘‘ کا کردار ہے جس نے اتنے دن گذرنے کے باوجود ڈاکٹر جمیل جالبی کے بارے میں میرے کالم کا انتظار کیا۔یہ انتظار میرے الفاظ کا نہیں بلکہ اس اہل قلم کو خراج تحسین پیش کرنا تھا جس اہل قلم نے خاموشی کے ساتھ اردو زباں کے تحفظ اور ترقی کے لیے اس طرح کام کیا جس طرح کوئی مزدور کام کرتا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کا جنم کہاں ہوا تھا؟ انہوں نے ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور انہوں نے یونیورسٹی کی ڈگریاں کہاں سے لیں؟ اس بارے میں میڈیا عام پڑھنے والوں کو کچھ نہ کچھ بتا چکا ہے مگر میری نظر میں ان کا اصل کام اردو زباں کے آغوش میں علم اور ادب کے ہیرے موتی ڈالنے والا تھا۔ جمیل جالبی صاحب کی ہم اس لیے عزت نہیں کرتے کہ وہ اہم اداروں کے اہم منصبوں پر فائز رہے۔ وہ کرسیاں جن پر کچھ وقت کے لیے ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب انتظامی امور سنبھالنے کے لیے بیٹھے؛ وہ کرسیاں اب بھی بھری ہوئی ہیں۔ ان کرسیوں میں سے کوئی کرسی بھی خالی نہیں رہے گی مگر وہ کرسی ہمیشہ خالی رہے گی جس کرسی پر بیٹھ کر ڈاکٹر جمیل جالبی اردو زباں کی جدید ترین لغت پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کرسی پر بیٹھ کر ’’پاکستانی کلچر‘‘ اور’’ ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ جیسی ناقابل فراموش کتابوں کو تحریر کیا۔ جس دن میں نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی وفات کے بارے میں پڑھا اس دن میں اپنے کتب خانے سے ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ پڑھنے بیٹھ گیا اور میرے دل میں اس انسان کے لیے عزت اور احترام کی مقدار بڑھ گئی جس انسان نے اس بات کا اعتراف کیاکہ ’’یہ 1963 کی بات ہے۔میں تقریبا تین سال سے قومی کلچر کی تشکیل کے مسئلے پر کتاب لکھ رہا تھا۔ یہ وہ کتاب تھی جو بعد میں ’’پاکستانی کلچر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ لکھتے لکھتے ایک لمحہ ایسا آیا کہ اچانک ذہن تاریکی میں ڈوب گیا۔ بالکل ایسے جیسے ’’فیوز‘‘ اڑ گیا ہو‘‘ ایسی کیفیت ایک ادیب اور عالم کو دیوانہ کردیتی ہے مگر اس کیفیت میں ڈاکٹر جالبی نے ہمت ہارنے کے بجائے مغربی علم اور فکر کو اردو زباں میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ یونانی مفکر ارسطو سے لیکر امریکی شاعر ٹی ایس ایلیٹ تک جس جس عالم اور ادیب نے کوئی تخلیقی قسم کی تحقیق کی تھی اس کو جمیل جالبی صاحب نے اس انداز سے اردو میں منتقل کیا کہ کتاب کہیں سے نہیں لگتی کہ تراجم کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا بڑا کارنامہ صرف یہ نہیں کہ انہوں نے مشکل مضامین کو آسان اور سادہ زبان کا پیراہن عطا کیا مگر میں ان کے انتخاب سے اس قدر متاثر ہوا کہ جس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس اپنے نظریات تھے۔ مگر ایک عظیم محقق کی طرح انہوں نے اپنے نظریات ایک طرف رکھ کر مغربی فکر کی ارتقاء کی تاریخ بیان کی۔ میرے ہاتھوں میں موجود اس کتاب کا ساتواں ایڈیشن ہے۔ مگر یہ کتاب یہاں نہیں رکے گی۔ یہ کتاب ایڈیشن در ایڈیشن چلتی رہے گی۔ اس کتاب کا سفر کبھی ختم نہیں ہوگا جس کتاب کا انتساب جمیل جالبی صاحب نے اپنے صاحب زادے کے نام کرتے ہوئے یہ شعر لکھا ہے : ’’تمام ساماں ہے تیرے سینے میں تو بھی آئینہ ساز ہوجا‘‘ ایسے انسان کی جدائی پر صرف آنکھیں نہیں آسماں بھی اشکباری کرتا رہے گا۔