پڑھی لکھی خواتین ایسے نعرے لکھ کر سڑکوں پر آ جائیں تو معاشرے میں بحث شروع ہونا لازم ہے شاید ان مظاہروں کے فنانسرز کا مقصد یہی تھا کہ کالم لکھے جائیں، ٹاک شوز ہوں،خبریں شائع ہوں اور وہ مزید پیسے بنائیں۔ کتبے کیا تھے ناقابل تحریر اور ناقابل نقل مغلظات تھے۔ یہ خواتین آزادی مانگ رہی تھیں۔ لباس پہننے نہ پہننے کی آزادی، شوہر کے حقوق قبول نہ کرنے کی آزادی‘ رشتوں کی جگہ صرف مرد عورت کے تعلق پر زور۔پاکستان میں ایسے مظاہرے اور جلوس پہلے بھی نکلتے رہے ہیں مگر اس بار جس نے کتبے تحریر کئے اس نے خواتین حقوق کے لئے کام کرنے والوں سے دشمنی کی ہے۔ ہمارا ایک جاننے والا گھرانہ ہے۔ گھر کا سربراہ سکول ٹیچر تھا۔ بیٹا چند سال کا تھا کہ باپ فوت ہو گیا ماں ناخواندہ تھی۔ چار ایکڑ زمین اپنا گھر اور دو بھینسیں کل اثاثہ تھا۔ خاتون نے سر پر پگڑی باندھ لی۔ ساری زندگی محنت اور عزت سے گزاری۔ بیس سال پہلے وہ 85سال کی عمر میں فوت ہوئیں تو لوگوں کے سامنے ان کی زندگی ایک مثال تھی۔ چارہ کاٹنا‘ گدھا ریڑھی پر گھر لانا ‘ بھینسوں کا دودھ نکالنا پھر فروخت کرنا۔ انہوں نے بیٹے کو پالا اور پھر بیٹے کی اولاد کی پرورش کی۔ اباجی کی سرکاری تنخواہ میں گزارہ مشکل تھا۔ امی کشیدہ کاری میں ماہر تھیں۔ شروع میں خود کڑھائی کی مگر اس میں محنت زیادہ اور معاوضہ کم تھا۔ ہمارے گھر کی ضروریات بہتر آمدن کا تقاضا کر رہی تھیں۔ ایک خاتون نے گلبرگ میں ایسے دکاندار کا پتہ دیا جو کڑھائی کا کام کرواتا تھا۔ ابا جی کا کام اتنا سا بڑھا کہ وہ ساتھ جاتے اور سفید دوپٹوں کا ڈھیر باندھ کر لے آتے۔ خواتین گھر آتیں اور کام مکمل کر کے دے جاتیں۔ ہم نے اس آمدن میں گھر کے کچھ کمرے تعمیر کئے۔ گھر کی کئی دوسری ضروریات بھی پورا ہونے لگیں۔ یہ سلسلہ ان کی بیماری پر ختم ہوا۔ صحافت میں میری تربیت میں زیادہ حصہ اطہر ندیم صاحب کا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کسی مڈل کلاس لڑکی کو دھوکہ نہ دینا۔ یہ لڑکیاں معاشی مجبوریوں کی وجہ سے گھروں سے نکلتی ہیں۔ اگر ان کا جنسی یا جذباتی استحصال کیا گیا تو بیٹیوں کے لئے مشکل گھڑی میں باعزت روزگار ختم ہو جائے گا۔ میں نے ان کی نصیحت پرہمیشہ عمل کیا۔ اطہر ندیم صاحب حمید اختر صاحب کو بہت احترام دیتے۔ حمید اختر صاحب کے ساتھ ان کا استاد شاگرد کا تعلق تھا۔ حمید اختر پاکستان بننے کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکرٹری بنے۔ اردو کالم نگاری میں حمید اختر کا اپنا رنگ ہے۔ حمید اختر صاحب کا بمبئی اور لاہور کی فلمی صنعت سے تعلق رہا۔ آزادی کے بعد پاکستان آنے کے دوران لوگوں کو کیا مصیبتیں جھیلنا پڑیں اس پر حمید اختر نے لاجواب لکھا۔ ساحر لدھیانوی حمید اختر کے بچپن کے دوست تھے۔ خیر بات خواتین کی ہو رہی ہے تو بتانا ضروری ہے کہ نامور اداکارہ صبا حمید ہمارے حمید اختر صاحب کی بیٹی ہیں۔ گھر کا ماحول کھلا ہونے اور لبرل نظریات کے باوجود ہم نے حمید اختر صاحب کی زبان یا قلم سے یہ نہیں جانا کہ وہ سماج میں عورت کی ترقی کا مطلب بے لباس ہونے کا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت کی آزادی کا مطلب معاشی طور پر عورت کا اپنے پائوں پرکھڑا ہونا تھا۔ وہ عورت کو ایسے علوم اور ہنر سکھانے کی بات کرتے تھے جو اسے سماجی تحفظ دے پائیں۔ ستر کی دہائی پاکستانی سماج کے خلاف سازشوں کا زمانہ ہے۔ لبرل ازم اس وقت تک نئی اور تعمیری سماجی اقدار سے آگاہی کے معانی میں لیا جاتا تھا۔ بائیں بازو کے لوگ چونکہ خواتین کے زیادہ سماجی کردار کے حامی تھے اس لئے دنیا میں بے حیائی اور اخلاق سوزی کا کاروبار کرنے والوں نے انہیں اپنا سہارا بنایا۔ اس سے بائیں بازو کی تحریک کو بعد میں نقصان ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ کہ بھٹو عہد کے بعد بائیں بازو کے دانشور نایاب ہو گئے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ۔یہ ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جہانگیر تھیں جنہوں نے خواتین حقوق کو جنس،لباس اور مرضی کی شادی کو نئے پیرائے میں بیان کرنا شروع کیا۔ اس پیرائے میں صرف مرد اور عورت کا تعلق پیش کیا جاتا۔ عاصمہ اور ان کی ساتھی خواتین یہ بات کبھی واضح نہ کر سکیں کہ باپ بیٹی‘ بھائی بہن اور دوسرے رشتوں میں عورت نے جو احترام پایا ہے کیا نئے حقوق نسواں کے نعروں میں ان کا اعتراف موجود ہے۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ہر چیز فروخت ہوتی ہے گھر کا کوڑا کرکٹ بھی اب بک جاتا ہے۔ آپ کوئی نعرہ لگا دیں چند لوگ آپ کے ساتھ ضرور ہم آواز ہوں گے۔ یقینا ہم سب کو سماجی آزادی درکار ہے۔ سندھ کے اس ہاری کے بارے میں کیا خیال ہے جو وڈیرے کے برابر نہیں بیٹھ سکتا اس کے قدموں میں بیٹھتا ہے۔ بلوچستان کے اس مفلوک الحال کے بارے میں کیا کہیں گے جس نے خدا کی جگہ سردار کو دے رکھی ہے۔ وہاں مرد عورتوں سے زیادہ محکوم اور لاچار ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیاسی امور یا پھر سطحی مفادات کے پیچھے اتنا بھاگ رہے ہیں کہ سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ بھاگتے بھاگتے کسی جگہ ہمیں ٹھوکر لگتی ہے تو ہم سیاسی تجزیہ کاری روک کر عورتوں کے مظاہرے پر شو کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بد سلیقہ اتنے کہ اس اہم معاملے پر تبصرہ اور رائے کے لئے ہمیں سماجی امور کے ماہرین دستیاب نہیں ہوتے۔ ہم اس مظاہرے کو بھول جائیں گے۔ ہم ان کتبوں پر لکھے مغلظات کو مٹا دیں گے‘ ہم ان خواتین کو گالیاں دے کر دل کی بھڑاس نکال لیں گے مگر کنوئیں میں گرا کتا نہیں نکالیں گے۔ اب تک بطور قوم ہم نے صرف دہشت گردی سے مقابلہ کا کارنامہ اجتماعی طور پر انجام دیا ہے۔ سماج کا ڈھانچہ ضروریات کو کیسے جگہ دے اور ہماری دینی اورسماجی اقدار کو کس طرح احترام دیا جائے اس پر سماج گنگ ہے۔ معلوم نہیں جن لڑکیوں اور خواتین نے اس طرح کے نعرے لگائے ان کو کس نے اکٹھا کیا اور اجتماع کرنے والے کو کہاں سے فنڈز ملے مگر ریاست کی ذمہ داری کی بجائے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو بتائیں کہ اچھی اور خود مختار عورت حضرت خدیجہؓ جیسی ہوتی ہے۔