ہر طرف معاشی بحران کا شور ہے لیکن سمجھنے کی ایک ضروری بات یہ ہے کہ یہ بحران غیر اہم ہے‘ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ معاشی امور کے ماہر اور تجزیہ نگار کئی دن سے اودھم مچائے ہوئے ہیں کہ معیشت کا دیوالیہ پٹ گیا ہے‘ صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے‘ حالات سنگین ہونے والے ہیں۔ بے روزگاری میں کئی گنا اضافے سے لوگ کاٹ کھانے کو دوڑیں گے۔(کیسے؟) شرح نمو اور گرے گی‘ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ روپے کی بے قدری میں اضافہ ہو گا۔ پیداواری عمل اتنا کم سطح پر آ جائے گا کہ پیداوار ڈھونڈے سے نہ ملے گی۔ در حقیقت ان سارے ڈراووں میں کوئی بھی بات پریشان کن نہیں ہے۔ کوئی بھی معاملہ اس قابل نہیں کہ اس پر توجہ دی جائے۔ جو ہو رہا ہے‘ اور جو ہو رہا ہے‘ اسے معمول کے واقعات سے زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔ وجہ آپ کے سامنے ہے۔ ان میں سے کوئی بھی بات پریشان کن ہوتی تو باقی سب سے زیادہ وزیر اعظم پریشان ہوتے۔ قوم کو اعتماد میں لیتے اور اسے بتاتے کہ ہم اس نام نہاد طوفان سے نمٹنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یعنی معاملہ ایسا ہے ہی نہیں کہ نوٹس لیا جائے۔ ایک روز پہلے جب سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی اور سرمایہ کاروں کے کھربوں روپے ڈوب گئے اور ڈالر 134روپے کا ہو گیا تو اس شام وزیر اعظم نے ایک سیمینار میں قوم کو درپیش اصل اور سنگین مسائل میں سے ایک کو توجہ کا مرکز بنایا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ان نام نہاد بحرانات کا ذکر تک نہیں کیا کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ترقی میں معاشی امور کا دخل ہوتا ہے نہ کارخانوں اور ترقیاتی کاموں کا‘ غربت اور بھوک سے بھی ترقی کا کوئی لینا دینا نہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی اضافی اور قدرے غیر ضروری چیزیں ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک اخبار کے کامرس رپورٹر نے خبر دی ہے کہ حالیہ 51دنوں میں ملک کو 2800ارب روپے کا نقصان ہوا اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں 30فیصد اضافہ ہو گیا۔ یہ خبر وزیر اعظم کے اس خطاب سے ایک دن پہلے تیار ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مہنگائی بڑھانا مجبوری ہے۔ اور سٹاک مارکیٹ کے اس کریش سے بھی ایک دن پہلے کی ہے جس میں مزید کھربوں ڈوب گئے۔51دنوں میں ظاہر ہے اس سے پہلے کے دو اڑھائی سو دن بھی شامل نہیں جن میں ڈوبنے والی رقم کے اعداد و شمار بقائمی ہوش و حواس سنے ہی نہیں جا سکتے۔ وزیر اعظم کے خطاب سے اگلے روز مہنگائی کا ایک ریلا اور آیا۔ ایک اخبار کی سرخی ہے کہ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ یہ نامکمل سرخی ہے۔ آسمان سے باتیں تو پہلے ہی کر رہی تھیں‘ اب دوسرے آسمان تک پہنچی ہوں گی۔ سنا ہے سات آسمان ہیں۔ اس لحاظ سے ابھی مہنگائی نے مزید پانچ آسمان طے کرنے ہیں۔ روٹی کی قیمت میں اکٹھا چار روپے کا اور نان کی قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ ہو گیا جسے تاریخی تبدیلی کہا جا سکتا ہے۔ ایسی جست مہنگائی نے پہلے کب لگائی۔ ایک محلہ جاتی مبصر سے پوچھا کہ تیل گیس کی قیمتیں بڑھنے کے نتیجے میں مہنگائی جو ہونا تھی ہو چکی‘ اب یہ اضافی مہنگائی کی وجہ کیا ہے۔ بولے یہ دکانداروں کی مستحن فہمی کا نتیجہ ہے۔ سخن فہمی؟کیسی سخن فہمی اور اس کا مہنگائی سے کیا تعلق؟ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ بولے‘ جب وزیر اعظم نے کہا کہ مہنگائی بڑھے گی تو دکانداروں نے سمجھا کہ وزیر اعظم مہنگائی بڑھانے کی اپیل کر رہے ہیں‘ سو انہوں نے اپیل پر لبیک کہا…! پختون خواہ عوامی پارٹی کے رہنما محمود خاں اچکزئی نے مطالبہ کیا ہے کہ سارے پشتون علاقوں کو اکٹھا کر کے نیا پشتون صوبہ بنایا جائے۔ یہ مطالبہ وہ پہلے بھی کر چکے ہیں اور اس کا نام بھی تجویز کر چکے ہیں‘ افغانیہ ۔ اسی طرح کا پشتون صوبہ بنانے کا مطلب بلوچستان کی تقسیم ہو گا کیونکہ ان کا واضح اشارہ شمالی بلوچستان کی طرف ہے جہاں پشتونوں کی اکثریت ہے اور افغان مہاجر بھی بڑی تعداد میں وہاں مقیم ہیں اور اگر وزیر اعظم کے اس معلق فیصلے پر عمل ہو گیا جس کے تحت پاکستان میں پیدا ہونے والوں کو پاکستانی شہریت دی جاتی ہے تو پشتونوں کی آبادی مزید بڑھ جائے گی۔ ممکن ہے پنجاب کے ایک آدھ ضلع میں بھی پٹھانوں کی اکثریت نکل آئے۔ اس مطالبے کو پنجاب کی تقسیم کے ’’فیصلے‘‘ کا شاخسانہ سمجھا جائے۔ پنجاب تقسیم ہو سکتا ہے تو دوسرے صوبے کیوں نہیں۔ یہ مطالبہ آگے بڑھے گا اور سندھ میں بھی جائے گا جہاں شہری علاقوں میں یہ پہلے ہی خواہش کی شکل میں موجود ہے اور گاہے گاہے سنائی بھی دیتا ہے اگرچہ پر زور طریقے سے نہیں اور اس پر سندھی عوام کا سخت ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ جس پر کچھ لوگ حیرت بھی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ سخت ردعمل دینے والے یہی اصحاب پنجاب کی تقسیم ’’وقت کی ضرورت‘‘ قرار دیتے ہیں اور سندھ کی تقسیم کو ناقابل تصور بھی کہتے ہیں۔ اچکزئی صاحب نے پشتونوں کا ایک ہی صوبہ کرنے کا مطالبہ کیا تو ہزارہ ڈویژن کو پختونخواہ سے الگ کرنے کی تحریک زور پکڑ جائے گی۔ ڈیرہ اسمعیل خان کے لوگ جنوبی پنجاب میں شمولیت کا مطالبہ کریں گے۔ صوبے تقسیم کرنا غلط نہیں‘ نئے صوبے بنانا بھی غلط نہیں لیکن پاکستان کی صورتحال سب کے سامنے ہے‘ ایک صوبہ تقسیم ہوا تو سبھی کے تقسیم ہونے کے راستے کھل جائیں گے۔ کئی حلقے مزاحمت کریں گے اور بات بڑھ جائے گی۔ چھوٹے انتظامی یونٹ کی دلیل غیر معقول ہے۔ ہمارے پڑوس بھارت میں پنجاب سے بڑے کتنے ہی صوبے ہیں۔ اکیلے یو پی کو دیکھ لیں‘ رقبے میں پنجاب سے بڑا ہے اور آبادی میں دوگنے سے بھی زیادہ۔ پنجاب کی آبادی10کروڑ ہے تو یو پی کی 22کروڑ۔ پھر مہاراشٹر ہے جس کا شہر ممبئی کروڑوں کی آبادی رکھتا ہے۔ اس صوبے کی آبادی بارہ کروڑ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ پھر مغربی بنگال ہے۔ جس کی آبادی کم و بیش اتنی ہی ہے جتنی ہمارے پنجاب کی۔ وہاں کوئی چھوٹے یونٹ کی بات ہی نہیں کرتا۔ بھارت میں جتنے بھی نئے صوبے بنے ہیں سب نسلی‘ لسانی بنیادوں پر بنے ہیں۔ ہمارے ہاں جتنی نسلی تقسیم ہے فی الحال اسی کو کافی سمجھا جائے۔ ٭٭٭٭٭ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ نئے پاکستان میں شہریوں کو لاپتہ کیا جا رہاہے۔ جو بیان چھپا ہے‘ شاید اس میں ’’بھی‘‘ کا لفظ شامل ہونے سے رہ گیا۔ لاپتہ تو کب سے ہو رہے ہیں۔ بیاں یوں ہونا چاہیے تھا کہ نئے پاکستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ لاپتہ افراد سے متعلق کمشن آف انکوائری نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہی بات کہی ہے۔ مطلب یہ کہ اب تک لوگ جس حساب سے لاپتہ ہو رہے تھے‘ نئے پاکستان میں اسے کافی نہیں سمجھا گیا۔ اب تک جو لوگ لاپتہ ہوئے‘ وہ ناکافی تھے۔ یہ معمول کا معاملہ ہے۔’’ہماری جنگ‘‘ لگ بھگ دو عشروں سے معمول کا معاملہ ہے اور لاپتہ کرنے کا عمل اسی معمول کے معاملے کا حصہ ہے۔ اس پر پریشانی مناسب نہیں۔ ہماری جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔ نئے پاکستان کے اولی الامر ایک زمانے میں ہماری جنگ کے مخالف تھے اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کے بھی، لیکن وہ ناسمجھی کا زمانہ تھا۔