قومی اسمبلی کے حلقہ 133 کی نشست پرویزملک کے انتقال کے بعد خالی ہوئی ہے۔ پرویز ملک جسٹس ملک عبدالقیوم کے بھائی تھے۔ پرویز ملک لاہور 11 قومی اسمبلی کے حلقہ 133 سے 2018ء کے الیکشن میں 89678 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری اعجاز نے 77231 ووٹ حاصل کئے تھے۔تحریک لبیک کے مطلوب احمد نے 13235 ووٹ لئے تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری اسلم گل نے 5585 ووٹ حاصل کئے تھے۔کسی بھی آزاد امیدوار کے ووٹ 2000 سے زائد نہ تھے۔ الیکشن 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ لاہور 5 کے قومی اسمبلی کے حلقہ 127 سے امیدوار تھے۔اس حلقہ سے ملک پرویز کے بیٹے علی پرویز ملک پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ علی پرویز نے2018ء کے الیکشن میں 113273ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ جمشید اقبال چیمہ نے 66861 ووٹ حاصل کئے۔ تحریک لبیک کے محمد ظہیر نے 23140 ووٹ لئے اور پیپلز پارٹی کے عدنان سرور صرف 1775 ووٹ لے سکے۔ اب 133 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن نے ٹکٹ ملک پرویز کی اہلیہ شائستہ ملک کو دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جمشید اقبال چیمہ کوٹکٹ دیا تھا اور انکی کورنگ امیدوار انکی بیوی مسرت چیمہ تھیں۔ جمشید اقبال چیمہ کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں۔ انکی اہلیہ کے کاغذات بھی مسترد ہو چکے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے تصدیق کنندہ ان کے حلقہ سے نہ تھے۔ جمشید اقبال کے تصدیق کنندہ کا تعلق حلقہ 130 سے ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق تصدیق کنندہ کا ووٹ اس حلقہ میں ہونا چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ تصدیق کنندہ کے ووٹ 2020ء کی ووٹر لسٹ میں ردو بدل کے نتیجہ میں اس حلقہ سے غائب ہوئے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کا کوئی امیدوار اس حلقہ میں موجود نہیں ہے اور اب الیکشن پاکستان مسلم لیگ نواز اور آزاد امیدوار کے درمیان ہے۔یہ بڑا دلچسپ ایشو ہے کہ جمشید اقبال چیمہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے مشیر برائے فوڈ سیکیورٹی رہے ہیں اور انکی اہلیہ مسرت چیمہ خواتین کی مخصوص سیٹ پر ممبر پنجاب اسمبلی نامزد ہوئی ہیں۔ دونوں میاں بیوی پڑھے لکھے ہیں۔ جمشید چیمہ صاحب ایک بڑے گروپ کے چیف ایگزیکٹیو بھی ہیں۔ بڑی بڑی سلائیڈیں دکھاتے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 60 کو نہیں پڑھ سکے جو کہتا ہے کہ تصدیق کنندہ کا ووٹ اس حلقہ میں ہونا چاہیے۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ ووٹ لسٹ میں تبدیلی ہوئی ہے تب بھی کسی بندہ نے یہ زحمت نہیں کی کہ وہ ووٹر لسٹ دیکھ کر تصدیق کرے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں باتیں کرنے والے بہت لوگ ہیں کام کے وقت کوئی نظر نہیں آتا۔تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات میں سب لوگ باہر سے تھے۔ جناب شیخ رشید اور فواد چوہدری دونوں منظر سے غائب ۔ کیا شرائط طے ہوئی ہیں ان پر بھی پر اسرار خاموشی ہے۔ ضمنی الیکشن ہمیشہ حکومت جیتتی ہے مگر یہ عجیب حکومت ہے جو مختلف بہانوں سے الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ پنجاب حکومت کی درخواست ہے کہ الیکشن ملتوی کر دئے جائیں کیونکہ امن امان کی صورتحال ٹھیک نہیں الیکشن 5 دسمبر کو ہونا ہے اور علامہ خادم حسین رضوی کی برسی 19 نومبر کو ہے الیکشن اسکے 16 دن بعد ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انتخابی فہرست میں جو نقائص ہیں پہلے انکو دور کیا جائے پھر الیکشن ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا وہی حال ہے جو انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا ہے۔ ورلڈ کپ شروع ہونے پہلے ہی انڈیا اپنے اپ کو چیمپین سمجھنا شروع ہو گیا تھا۔ جب ٹورنامنٹ شروع ہو ا تو پہلے دونوں میچ ہار کے ورلڈ کپ سے باہر ہو گیا اور اب اس امید پے ہے کہ افغانستان نیوزی لینڈ کو ہرا دے اور انڈیا سے ہار جائے تاکہ انڈیا ورلڈ کپ کے سیمی فائینل میں پہنچ سکے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس پروفیشنل کی ٹیم ہے ہم سب کام کر چکے ہیں بس حکومت ملنے کی دیر ہے عوام کے تمام مسائل دنوں میں حل ہو جائیں گے۔ جناب اسد عمر کہتے تھے پاکستان کی اکانومی کو وہ بہت اچھی طرح سے جان چکے ہیں بس چند مہینوں کی بات ہے پاکستان خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ پاکستان کو کسی غیر ملکی قرضہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف نامی ادارے کو تو وہ پاکستان میں دفن کر چکے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے اپوزیشن الیکشن کی طرف بھاگتی ہے اور حکومت الیکشن کو ایک ڈراؤنا خواب سمجھ رہی ہے۔ابھی 2022ء باقی ہے 2023 ء میں اس جماعت کا کیا ہو گا۔ بات سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا وہ حال ہے جیسے کوئی میدانی علاقہ کا بندہ گرمیوں میں پہاڑ پر چلا جائے اور پھر وہاں پر سردی کو کوسنا شروع کر دے۔ اس کو پہلے پتہ نہیں تھا کہ پہاڑ پر کیا موسم ہوگا اور جہاں برف ہے وہاں سردی بھی ہوگی۔ اب یہ دن رات واویلہ کرتے ہیں خزانہ میں کچھ نہیں۔حکومتی ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ ان کا حال اس بیٹسمین کا ہے جو کہتا ہے پرتھ کی وکٹ پر گیند بہت تیز آئی اور میں آوٹ ہوگیا۔ خدا کے بندے پرتھ کی وکٹ پر گیند تیز نہیں آئے گی تو اور کیا ہوگا۔پاکستان کی اکانومی تباہ حال نہ ہوتی تو آپ کو موقع کیوں ملتا۔ اب جب آپ نے وعدے کئے ہیں اب ان کو پورا کریں حالات کا رونا کمزور لوگ روتے ہیں۔ قائد نے انتہائی نا مسائد حالات میں ملک بنا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو ٹویٹر اور فیس بک سے نکل کر میدان میں آنا ہوگا۔ سانپ ڈنڈے سے مارے جاتے ہیں بین بجانے سے نہیں۔ اب بین ختم کریں اور سانپ کو ہاتھ سے پکڑ کر پٹاری میں ڈالیں۔ سانپ خود پٹاری میں نہیں آئے گا۔ الیکشن لڑو الیکشن،مقدمات کے پیچھے نہ چھپو۔