تذکرہ تو مجھے کرنا ہے سلام کی ایک محفل کا کہ جسے ادبی دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم سے پیش کیا گیا جس کے روح رواں علی نواز شاہ ہیں جو افسر بھی اور ادیب ہیں پھر ہر دو حوالے سے خوبصورت نظامت اس متبرک محفل کی اعجاز رضوی نے کی اور صدارت کا اعزاز مجھے بخشا گیا‘ شاید اس لئے کہ میں ابھی ابھی فریضہ حج ادا کر کے آیا ہوں۔ وگرنہ صدارت سے بہت ہی سینئر ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ خیر ہم اپنی محفل کی بات تو کریں گے ہی مگر دل چاہتا ہے کہ کچھ سلام کی بابت تمہید باندھ دی جائے کہ اصل میں حمد و نعت کے بعد ذکر سلام و مرثیہ و نوحہ ہی کا بنتا ہے یہ ہماری روایت کا بہت ہی اہم باب ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ یہ تجدید عہد وفا کا بھی تو موقع ہے کہ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا اور اس سے بھی زیادہ فکر انگیز بات اقبال کتنی سہولت سے کر گئے ’’قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں‘‘۔ اور آج کے منظر نامے سے تو یہ ہو دکھتا ہے کہ حسینؓ کو سمجھنے والا بھی قافلہ میں نہیں۔ بات تو ہو رہی تھی سلام کی جس کی بنیاد غم حسینؓ مگر سبق سیرت امام عالی مقام ہے۔ سلام کی روایت تو اپنی جگہ کہ اس میں کہاگیا کہ ’’ساتویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں‘‘ اور پھر اس میں انہیں جیسا نابغہ آیا جس نے اس صنف کو آسمان عروج تک پہنچا دیا جب اس نے کہا کہ ’’اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ اس نے ایسا کر کے بھی دکھا دیا تب سمجھنے والے کہنے لگے کہ وہ اپنی اردو زبان پر حاوی نظر آتے ہیں۔ لفظ ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں پھر زمینوں میں جب انہوں نے الفاظ کے بیج بوئے اپنی فصل اٹھائی: سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو ہم آسمان سے لائے ان زمینوں کو اسی زمین میں ان کا مقطع بھی امر ہو گیا: خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو معزز قارئین ! اسلام کا تذکرہ چھڑا تو بیان خود بخود ہی انیس کی طرف چلا گیا آپ اسے میری پسند بھی کہہ سکتے ہیں۔ شبلی نے بھی جب موازنہ انیس و دبیر لکھا تو انیس کو اور زیادہ اجاگر کر دیا اس میں بڑے بڑے نام آئے مگر برگد کے درخت کے نیچے پنیری بھی کھاد بن جاتی ہے۔ خیر میں کوئی مضمون نہیں لکھ رہا بہت اچھے شعر اس میں شعرا نے نکالے اقبال نے پورا فلسفہ ہی بیان کر دیا: غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ چلیے ایک شعر مرحوم منیر سیفی کا بھی پڑھ لیں جو آدمی کے اندر اب اضطراب کر دیتا ہے: جلا بھی شدت جاں سے بجھا بھی شان سے تھا وہ اک چراغ جو سورج کے خاندان سے تھا حلقہ ارباب ذوق لاہور نے اپنی عظیم روایات کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ٹی ہائوس میں محفل مسالمہ کا اہتمام کیا تھا میرے ساتھ سٹیج پر نیلما ناہید درانی اور اقبال راہی مہمان خصوصی تھے۔ ظاہر ہے اس محفل کا آغاز بھی بہت اچھا تھا کہ اعجاز رضوی نے اپنے سلام سے کیا: ہوا کے ہاتھ جلے خیموں کو بجھاتے ہوئے زمین روئی تھی یہ واقعہ سناتے ہوئے اور پھر تاثیر نقوی نے اپنے مخصوص انداز میں سلام پیش کیا: حیرتوں کی اک مکمل داستاں ہے کربلا ایک پاکیزہ لہو کا گلستاں ہے کربلا اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ بہتر ہے کہ میں کچھ شعرا کے نام لکھ دوں تاکہ سندر ہے کہ وہ اس متبرک محفل میں شریک تھے۔ فیصل زمان چشتی‘ ابتہاج ترابی‘ فراست بخاری‘ یونس مسعود‘ حسن بانو‘ وسیم عباس‘ غلام عباس فراست‘ حسام الدین حسام‘ شہزاد میاں‘ فرہاد ترابی‘ ہمایوں پرویز‘ شاہدہ دلاور شاہ‘ زبیدہ حیدر زینی‘ منظر حسین جعفری‘ امیر حسین جعفری‘ آغا صدف مہدی‘ رضوانہ تبسم درانی‘ شجاع شاد شہناز نقوی‘ ڈاکٹر غافر شہزاد اور نوجوان نسل کا نمائندہ شاعر فرحت عباس شاہ فرحت کے دو اشعار دیکھیے: کب سجدے سے تبدیل کیا شاہ نے منظر تب موت نے اندازہ لگایا کہ خدا ہے وہ سجدہ تو ایسا ہوا اللہ وہ سجدہ جب سامنے ایسے نظر آیا کہ خدا ہے سب لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق شہنشاہ کرب و بلا کے حضور خراج عقیدت پیش کیا اور داد پائی سب شاعروں کے اشعار نقل کرنا بھی تو آسان نہیں کچھ شعرا نے توجہ حاصل ذرا زیادہ کی ان میں وسیم عباس بھی تھا: ملتا نہیں کسی بھی یزیدی مزاج سے ایسے مرے مزاج پہ طاری حسینؓ ہے لازمی ہو گیا حسین ؓ کا غم باقی جو شے ہے اختیاری ہے محترمہ نیلما ناہید درانی کے دو اشعار: لوگ کہتے ہیں ہم حسینؓ کے ہیں ہم کو تو سارے غم حسینؓ کے ہیں تم تو اب بھی جھکا نہیں پائے اے یزیدوہ علم حسینؓ کے ہیں ہمارے دوسرے مہمان خصوصی تھے جناب اقبال راہی: آج پھر حق بات کہنے کو ترستی ہے زباں آج پھر محسوس ہوتی ہے کمی شبیرؓ کی کچھ جسارت ہم نے بھی کی تھی بات ساری یہ سعادت کی ہے میں نے اس گھر سے محبت کی ہے میں کہاں اور کہاں مدح حسینؓ یوں سمجھ لو کہ جسارت کی ہے سعد حق بات کہی ہے میں نے یعنی نسبت کی حفاظت کی ہے ٭٭٭٭٭