حکیم عنایت اللہ نسیم سوھدروی بلاشبہ ایک نابغہ ء روزگار ہمہ صفت، ہمہ جہت،اور عہد آفریں شخصیت کے مالک تھے۔حکیم عنائیت اللہ نسیم سوہدروی کا تعلق ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ اْن کی ولادت مردم خیز سرزمین سوہدرہ میں ہوئی۔ دینی تعلیم مولانا غلام ربانی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی اورمیٹرک مشن ہائی سکول وزیر آباد سے پاس کیا۔ اْن کے چچا حکیم عبدالرحمان اپنے وقت کے نامور حکیم تھے۔ دوران تعلیم ان کا تعلق مولانا ظفرعلی خاں سے ہو گیا،مولانا کا گائوں اْن کے علاقے سوہدرہ اور وزیرآباد کے درمیان میں واقع ہے،آپ سوہدرہ سے وزیر آباد جاتے ہوئے کرم آباد رْکتے اور مولانا ظفر علی خان سے استفادہ کرتے۔ میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تومولانا ظفرعلی خان اور اپنے چچا کے ایماء پرآپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا، جہاں آپ نے پانچ سال تک ڈگری کورس پاس کیا اور طب کی تعلیم مکمل کی۔ علی گڑھ میں اْن کی دوسری صلاحیتیں بھی نکھر کر سامنے آئیں۔ آپ کا دورشباب تھا ،آپ کی طرح اور بھی مسلم نوجوان علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے۔ وہ سب حریت اور آزادی کے جذبے سے سرشار تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی برصغیر میں مسلمانان ہند کا علمی گہوارہ ہی نہیں تحریک آزادی کا مرکز بھی تھی۔ اس یونیورسٹی کے مسلمان طلباء نے بر صغیر میں انقلاب برپا ء کردیا اوربرطانوی سامراج کے استعمار سے نجات حاصل کرنے کی تحریک میں حصہ لے کراسے قائد اعظم کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار کرایا۔ حکیم عنایت اللہ نسیم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے قیام علی گڑھ کے دوران ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قادیانیوں کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک کو ناکام بنادیا اور مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں اس فتنے کے مکمل سد باب کا انتظام کیا۔ اس سلسلے میں ان کی شاندار خدمات کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ بقول ڈاکٹر وحید عشرت مرحوم : اے دوست زمانے روتے ہیں تب کہیں ہم ہوتے ہیں جب ہم کہیں نہیں ہوتے ہیں تو صدیوں زمانے روتے ہیں حکیم عنائیت اللہ نسیم رحمتہ اللہ علیہ سوہدروی دوران تعلیم ہی سیاست میں آ گئے تھے۔ علی گڑھ میں جب آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تو تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جو طلباء آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن 1937ء لکھنوء سیشن 1938ء پٹنہ میں شریک ہوئے اْن میں حکیم عنائیت اللہ نسیم رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ اس دوران میں قائداعظم سے بھی ملاقاتیں ہوئیں 1937ء کے ضمنی انتخابات (بجنور) میں مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کے ساتھ کام کیا۔ قائد اعظم کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تشریف آوری پر جن طلباء نے اْن کی بگھی کو کندھوں پر اْٹھایا تھا اْن میں حکیم عنائیت اللہ نسیم بھی شامل تھے۔ فسادات بہار شہر کے دوران میں آپ نے بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے ساتھ مل کر کام کیا۔ عام انتخابات جو قیام پاکستان کے نام پر لڑے گئے تھے، میں نوابزادہ لیاقت علی خاں اور کنور اعجاز کے حلقہ انتخاب مظفر نگر میں لیگ کی جانب سے ڈیوٹی کی۔ تحریک پاکستان میں مولانا ظفر علی خان اور ابوسعید انور کے ہمراہ دورے پر گئے۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری ، تحریک جمہوریت اور تحریک نظام مصطفیٰ میں کام کیا۔1987ء میں حکومت نے اْن کی ملی خدمات پر تحریک پاکستان گولڈ میڈل عطا کیا۔ مرحوم نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ انہوں نے گزشتہ نصف صدی کی ہر قومی تحریک میں حصہ لیا مگر کبھی مفادات حاصل نہیں کئے۔ پاکستان سے محبت اْن کا جزوایمان تھا۔ وہ کہا کرتے تھے یہ وطن ہم نے طویل جدو جہد اور بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے،آزادی کی ناقدری کی ہمیں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں سزا مل چکی ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور بقاء نظریہ ء پاکستان کے مطابق ملک چلانے میں ہے۔ ہم نے عطیہ ربانی کی قدر نہ کی اور قائد کی امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسلام اور پاکستان پر جب کوئی وار ہوتا ، یا کوئی سازش ہوتی آپ تحریر اور تقریر دونوں صورتوں میں میدان میں آ جاتے۔ جن لوگوں نے مجلس کارکنان تحریک پاکستان کے زیر اہتمام قومی ایام پر تقاریب میں اْن کے خطاب سنے ہیں اْن کے کانوں میں اس محب وطن کے پرجوش خطاب کا اثر آج بھی موجود ہے۔ قومی اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ وہ نظریہء پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ وہ اس سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ جس کے سرخیل محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے تووہ خاص مداح تھے۔ مولانا سے اْن کے تعلق کا ثبوت یہ ہے کہ مولانا نے کئی نظمیں اْن کی فرمائش پر لکھیں۔ مولانا ظفر علی خان کے انتقال کے بعد اْن کے نام اور کام کو اْجاگر کرنے کے لئے جس قدر محنت اور کام کیا وہ صاحبان فکرو نظر خوب جانتے ہیں۔ آپ مرکزی مجلس ظفر علی خان کے بانی و صدر تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خان کے بعد وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مولانا ظفر علی خان کے فکر و نظر کے چراغ کو روشن رکھا۔ اپنی عقیدت، تعلق اور دوستی کی شایان شان اور لائق تقلید مثال قائم کی۔ آپ کی وفات پر ملک بھر کے تمام علمی ، سیاسی، ادبی ، صحافتی،اور دینی حلقوں کی جانب سے خراج عقیدت و تحسین پیش کیا گیا۔ حکیم محمد سعید شہید نے یوں خراج عقیدت پیش کیا۔ '' حکیم عنائیت اللہ نسیم رحمتہ اللہ علیہ راہ حق کے مسافر تھے۔ اس راہ میں ہر سنگ گراں کو نظر انداز کیا اور صحیح کیا۔ اْن کا اصول حیات خدمت خلق رہا، انہوں نے آخری دم تک خود کو مصروف رکھا ،جدوجہدپیہم اْن کی زندگی کا عنوان رہا۔ اْن کا شمار پاکستان کے مشہور اطباء میں ہوتا تھا۔ آپ کی خدمات کا سلسلہ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ ‘‘