اردو کے معروف شاعر، ادیب اور نغمہ نگار حمایت علی شاعر کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ 14 جولائی 1926 ء کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ حمایت علی شاعر نے اپنا ادبی سفر افسانہ نگار کی حیثیت سے شروع کیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے اور پھر1951ء میں پاکستان آ کر کراچی ریڈیو سٹیشن کا حصہ بن گئے۔ 60 کی دہائی میں وہ بطور نغمہ نگار فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور 23 فلموں میں قریباً 103 نغمات لکھے۔ بطور فلم ساز و ہدایتکار انہوں نے ’’لوری‘‘ اور ’’گڑیا‘‘ کے نام سے کامیاب فلمیں بنائیں۔ فلم ’’دامن‘‘ اور ’’آنچل‘‘ پر بہترین نغمہ نگار کے نگار ایوارڈز حاصل کئے۔ ’’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو‘‘ ’’نہ چھڑا سکو گے دامن، نہ نظر بچا سکو گے‘‘ ’’تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم‘‘ ’’خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں‘‘’’ہم بھی مسافر تم بھی مسافر، کون کسی کا ہووے‘‘ جیسے فلمی نغموں اور ’’ساتھیو، مجاہدو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ جیسے ملی ترانے کے خالق تھے۔ بعد ازاں وہ 1976 ء میں کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے اور ’’پاکستان میںاردو ڈرامہ‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔ 2002 ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا، اردو ادب میں وہ رباعی کے مقابلہ میں تین مصرعوں پر مبنی شعری صنف ’’ثلاثی‘‘ کے موجد تھے۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری ’’آئینہ سر آئینہ‘‘ منظوم انداز میں لکھی جو ایک نیا تجربہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ، آگ میں پھول، مٹی کا قرض، تشنگی کا سفر، ہارون کی آواز سمیت ان کی کئی ضخیم کتابیں اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ان کا انتقال اردو زبان و ادب کا بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور اہل ادب کو یہ سانحہ برداشت کرنے کی توفیق دے۔( آمین)