آج تک ہزاروں تقریبات میں شرکت کر چکا ہوں،لیکن جو واقعہ عباس اطہر صاحب کی برسی کی تقریب میں دیکھا وہ اپنی نوعیت کا منفرد اور ناقابل یقین واقعہ لگتا ہے،جسے میں نے ہی نہیں لاہور پریس کلب کے نثار عثمانی ہال میں موجود سو سے زیادہ لوگوں نے دیکھا اور یہ سب کے لئے ہی عجب تھا، اس سے پہلے کہ اس انہونی پر بات کی جائے پہلے تھوڑا سا ذکر امریکہ سے آئی ہوئیں فوزیہ عباس کی جانب سے اپنے والد محترم کی یاد میں سجائی گئی اس بزم کا جس میں حکمران پارٹی کے کسی نمائندے کے سوا ان سبھی نے شرکت کی جنہیں آنے کی دعوت دی گئی تھی، کچھ ان لوگوں کی۔۔کمی بھی شدت سے۔۔۔ محسوس کی گئی جنہیں سید زادے نے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھایا ، تقریب میں لاہور پریس کلب کی نمائندگی کیلئے کوئی ایک عہدیدار بھی نظر نہ آیا،یہ اس صحافی کی چھٹی برسی کی تقریب تھی جسے جدید اردو صحافت کا موجد اور امام قرار دیا جا سکتا ہے، جس نے اردو صحافت میں خبر میں سرخی کی اہمیت کو اجاگر کیا، جناب حسین نقی، چوہدری اعتزاز احسن، انور عزیز چوہدری، جماعت اسلامی کے قائد جناب امیر العظیم اور عبدللہ ملک مرحوم کے صاحبزادے نے اظہار خیال کیا، راقم نے بھی اپنے محسن کی یادوں کے دریچے کھولے، شاہ صاحب کی بیٹی نے میرے پچھلے کالم کی غلطیاں بھی میرے سامنے رکھیں، امریکہ میں جلا وطنی کے دوران لیموزین شاہ صاحب نہیں ان کے دو بیٹے چلایا کرتے تھے، اور جب بھٹو صاحب نے اپنی کتاب،، اگر مجھے پھانسی دیدی گئی،،کا انگلش میں لکھا گیا مسودہ جیل سے باہر بھجوایا تھا تو اس کیس میں صرف عباس اطہر پکڑے گئے تھے اور انہیں شاہی قلعہ میں پہنچا دیا گیا تھا، دوسرے دونوں ملزم مظفر شیخ اور خواجہ نذیر صاحب ایجنسیوں کے ہتھے نہ چڑھ سکے تھے اور ان دونوں نے بیرون ملک پناہ لے لی تھی۔اور اب اس عجیب و غریب واقعہ کا ذکر جسے اس تقریب میں سب نے دیکھا۔ تقریب جاری تھی اسلم خان، مولوی سعید اظہر(جو کہ شدید علالت کے باوجود تشریف لائے) اور عبدللہ ملک صاحب کے بیٹے اظہار خیال کر چکے تھے اگلا مقرر اسٹیج پر تھا کہ ایک صاحب ہال میں داخل ہوئے ،وہ سیدھے اسٹیج تک پہنچے اور میزبان اور اصل مہمان خصوصی کے بیچ میں آ کر بیٹھ گئے۔ میں اس شخص کو جانتا تھا وہ دور دور تک پہنچ رکھنے والے کئی ممتاز صحافیوں کو اپنی دوستی کے دائرے میں داخل کر چکا ہے اور ایک سرکاری افسر ہے، خالد چوہدری نے جو تقریب کی نظامت بھی سنبھالے ہوئے تھے، کان میں پوچھا ، یہ صاحب کون ہیں؟ میں نے بد مزگی سے بچنے کیلئے جھوٹ بول دیا کہ نہیں جانتا؟ پھر یہی سوال فوزیہ نے پاس آ کر پوچھا، میں نے پھر نفی میں سر ہلا دیا، اس کے بعد تو اسٹیج پر بیٹھے سبھی لوگوں میں کھلبلی مچ گئی، لیکن وہ سرکاری افسر جو کئی برس بعد افسر بکار خاص بنا دیے جانے کی سزا کاٹ کر دوبارہ وزیر اعلی پنجاب شکایات سیل کا انچارج بن چکا ہے آخری مقرر حسین نقی صاحب کو خطاب کے لئے بلوائے جانے تک اسٹیج پر براجمان رہا، اس کا خیال ہوگا کہ وہ بہت جانا پہچانا سرکاری افسراور سماجی راہنما ہے،سب اسے جانتے ہونگے اور اسے بھی تقریر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا، لیکن جونہی نقی صاحب نے بولنا شروع کیا وہ غائب ہو گیا۔۔۔۔۔۔ چلیں ، اب میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دس سال پہلے ایک ہی دن میں پوری دنیا میں مشہور کیسے ہو گیا تھا؟اور آپ بھی درج ذیل سطور پڑھ کر اسے جان جائیں گے۔ یہ سن دو ہزار نو کی بات ہے،غالباً اکتوبر کا مہینہ تھا، ممتاز گلوکارہ حمیرا ارشد کو جنہیں لوگ جتنے شوق سے سنتے ہیں اتنے ہی ذوق سے دیکھتے بھی ہیں، لاہور کا کوئی ،،کاری گر،، پچاس لاکھ روپے کا چونا لگا گیا تھا، ایک تو بے چاری سے فراڈ ہوا دوسری جانب پولیس نے اس کی مدد کرنے کی بجائے اسی کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا، حمیرا ارشد کی بد قسمتی کہ وہ انصاف مانگنے وزیر اعلی کے شکایات سیل میں پہنچ گئیں، وہ اسی مذکورہ افسر کے کمرے میں موجود تھیں کہ دوسرے ایک نئے افسر نے اسے طلب کر لیا، دوسرے افسر نے حمیراکو اپنے پہلو میں بٹھا کر اس کی شکایت سننا شروع کردی، حمیرا ارشد بے چاری بولے جا رہی تھی اور دوسرا افسر اسے سننے کی بجائے مسلسل تکے جا رہا تھا، اسی دوران پہلے والا افسر غصے سے لال پیلا دوسرے افسر کے کمرے میں داخل ہوااور حمیرا ارشد کو ایڈوائس دی کہ وہ اس کے کمرے میں واپس چلے، حمیرا اس صورتحال پر محظوظ ہوتی اور مسکراتی رہی، مگر اٹھی نہیں تھی، اب پہلا افسر دوسرے افسر سے سیدھا ہو گیا کہ تم نے میرے پاس آنے والی گلوکارہ کو اپنے پاس کیوں بلوایا؟ دوسرا افسر حمیرا کو واپس کرنے پر کسی صورت تیار نہ تھا، پہلے تو اس نے اس کے مطالبے پر کان ہی نہ دھرے لیکن جب پہلے نوجوان افسر نے اونچی آواز میں مکالمے بولنے شروع کر دیے اور یہاں تک کہہ دیا کہ حمیرا ارشد کا مسلہ حل کرنے کیلئے تو میں نے خود فون کرکے اسے اپنے پاس بلوایا تھا اور تم نے بیچ میں کانٹی کیوں ڈال دی؟ دوسرے افسر نے ناراض افسر کو بار بار اخلاقاً کرسی پر بیٹھ جانے کی درخواست کی، مگر پہلا افسر تو اپنے ہوش حواس ہی کھو چکا تھا، اسے اپنی خوبصورت کلائنٹ کی واپسی کے سوا کوئی پیش کش منظور نہ تھی، دوسرا افسر بہت کایاں اور زیرک تھا، اس نے پتہ نہیں حمیرا ارشد کو کیا پٹی پڑھا دی تھی کہ وہ خود بھی پہلے افسر کے کمرے میں واپسی پر رضامند نہ تھی، بالآخر پہلے افسر نے ہتھیار ڈال دیے تھے اور لڑائی سے تھک ہار کر کرسی پر بیٹھ ہی گیا، دونوں افسروں کی اس لڑائی کی تمام تر وڈیو ہمارے سینئر صحافی عدنان ملک نے بنوا لی تھی، رات کو جب یہ خبر وائرل ہوئی تو اس دن کی سب سے بڑی اور سب سے دلچسپ اسٹوری بن گئی، اس خبر کے چرچے کئی دنوں تک جاری رہے ، یہ ساری کہانی اور اس کی وڈیو وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف تک بھی پہنچ گئی، انہوں نے اسی رات ان دونوں افسروں کو معطل کرکے انکوائری کا حکم دیدیا اور پھر سزا کے طور پر انہیں عرصہ دراز تک کوئی ذمہ داری نہ سونپی گئی ، دوسرا عیار افسر تو پتہ نہیں اس وقت کس عہدے پر ہے اور ملازمت میں ہے بھی یا نہیں؟ اللہ کرے کہ وہ اپنے ان نیک کاموں کا سلسلہ جاری و ساری رکھیں، اللہ بہترین اجر دینے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ لاہور پریس کلب سے باہر نکل رہے تھے دین محمد درد انتہائی اداس کھڑے ہوئے ملے، صحافت ایک مشن کے طور پر کی، پہلی بار وہ مسکراتے ہوئے دکھائی نہ دیے، اس سے پہلے کہ میں ان سے کوئی سوال کرتا، ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ایک اور صحافی دوست نے مجھ سے پوچھا،،،، آپ کو دین محمد درد صاحب کے صاحبزادے کے بارے میں تو علم ہوگا؟ میں نے شرمندگی کے ساتھ لا علمی ظاہر کی تو اس نے بتایا کی درد صاحب کا پندرہ سالہ جوان بیٹا شیخ زید اسپتال میں داخل ہے اور اس کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں۔۔۔ میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی، اللہ یہ کیسا امتحان؟ اس شریف النفس صحافی کے بیٹے کو ایک گردہ دے کر بچایا جا سکتا ہے، ایسے نیک کام سابق حکمران شریف برادران کرتے رہے ہیں، میں اس بات کا گواہ ہوں، ایک بار تو انہوں نے میری ہی اطلاع پر گردے کی ایک نوجوان پاکستانی مریضہ کیلئے ہمسایہ ملک کے اسپتال میں راتوں رات پیسے بھجوائے تھے،بیٹے کا بلڈ گروپ اے بی پازیٹو ہے، اب دین محمد درد اور ان کے جواں سال بیٹے کا مسیحا کون بنتا ہے، کوئی سرمایہ دار کرے یا کوئی بلا معاوضہ اپنا ایک گردہ عطیہ کرے، کوئی نہ کوئی ضرور سامنے آئے گا، آج ماہ صیام کا پہلا دن ہے ، خدا کرے کہ یہ مبارک دن دین محمد درد کے چہرے کی مسکراہٹ واپس لوٹا دے، آمین، ثم آمین۔۔۔