کتاب اللہ میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے رول ماڈل جس جماعت کو کہا گیا ہے اس کا نام ’صحابہ کرام‘ ہے ،یہ امت کے سب سے افضل واعلی ٰلوگ تھے ، اسلام کی سر بلندی اور اللہ اور اس کے خاتم النبیین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام عدول ہیں یعنی دیانتدار،عدل اور انصاف کرنے والے ،حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں۔صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں مگر اسی جماعت میں دس لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک ہی نشست میں اپنے زندگی میں جنت کی کنجیاں اپنے ہاتھوں میں تھام لیں ان میں ایک نام سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بھی ہے ۔ اسد الغابہ کی روایت کے مطابق 12 سال کی عمر میں تاریخ اسلام میں حفاظت ناموس خاتم النبیین نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر سب سے پہلے تلوار اٹھانے اور لہرانے کا شرف بھی آپ کو حاصل ہے اور اس کے بدلے میں بارگاہ ِرسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعائے خیر پائی۔ دوبار ہجرت کرنے والوں میں بھی آپ شامل ہیں ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جن چھ افراد کے نام خلافت کے لیے منتخب کیے ان میں بھی آپ شامل مگر ان کاسب سے بڑا اعزاز خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار طرفہ تعلق تھا ، ایک طرف سے وہ خاتم النبیین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد، دوسری جانب سے خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پھوپھا اورتیسرے رشتے میں وہ فخر انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم زلف تھے ۔ جن چند افراد کو دوبار اسلام کے نام پر ہجرت کی سعادت حاصل ہوئی ان میں بھی آپ کا اسم گرامی شامل ہے ۔ ہجرت مدینہ کے بعد مواخاۃ مدینہ میں حضرت طلحہ کے بھائی بنے اور انصار مدینہ سے حضرت سلمہ بن سلامہ ان کے برادر منتخب ہوئے ۔ اور یہاں انہیں خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو نضیر میں ایک باغ بھی اپنی جانب سے عطا فرمایا۔آپ کی پیدائش ہجرت نبوی سے 28 برس قبل مکۃ المکرمہ سے ہوئی ، صغر سنی میں ہی سایہ پدری سے محروم ہوگئے ، چچا نوفل بن خویلد نے اپنی سرپرستی میں تربیت کی ،والدہ ماجدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی خواہش تھی کہ نور نظر ایک عظیم سپاہی بنے اور اس آرزو میں اسی انداز میں سخت جاں بنایا اور اسی نہج پر تربیت کی ، اسی اثر سے بیٹا ضیغم شجاعت بنا اور نام کمایا۔آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ جب میدان جنگ میں تلوار چلاتے تو اس کو دندے پڑجاتے اور لوگ تلوار پر دندے دیکھ کر اندازہ کر لیتے کہ یہ تلوار زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے چلائی ہے ۔ خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں غزوہ بدر،احد، خندق، خیبر، فتح مکہ ، حنین،طائف،تبوک اور حجۃ الوداع میں بھی شامل ہوئے اور پھر عہد صدیقی و فاروقی میں بھی بہادری کے جوہر دکھائے ۔ تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ آپ اس قدر طویل قد کے مالک تھے کہ گھوڑے پر بیٹھ کے ٹانگیں سیدھی کرتے تو پاؤں زمین پر لگتے ۔میدان جنگ میں کئی بار شدید زخمی ہوئے مگر ان کی پرواہ کیے بغیر ہمیشہ دلیری سے مقابلہ کیا۔ بعض زخم اتنے گہرے تھے جن کے نشان آخر تک رہے ۔ آپ کے پوتے ہشام بن عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا جان کے جسم کے تین نشان بہت نمایاں تھے ۔ ایک نشان کندھے پر تھا جو یرموک کی جنگ میں لگا، دو زخم بدر کی لڑائی میں لگے تھے ۔ خندق کے موقع پر تو ان کی بہادری کے جوہر دیکھ کر خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ جملے ان کو ارشاد فرمائے جو جماعت صحابہ کی کثیر تعداد میں سے صرف دو صحابہ کے حصے میں وہ کلمات آئے خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا!’’ اے زبیر میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں‘‘۔ اللہ اکبر۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیماری کی وجہ سے ایک موقع پر انہیں امیر حج بھی مقرر فرمایا، آپ نے یکے بعد دیگرے سات خواتین سے شادیاں کیں اور کثیر اولاد پائی۔ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے عہد خلافت میں جام شہادت نوش کیا اورمولائے کائنات کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے ساتھ انہیں خاص لگاؤ بھی تھا اسی لیے جنگ جمل میں مصالحتی کوششوں میں سب سے آگے تھے ، ضیاء النبی جلد پنجم میں،ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ نے بیہقی شریف کے حوالہ سے لکھا کہ ایک دن خاتم النبیین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدناعلی المرتضیٰ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت وپیار کے ساتھ مصروف گفتگو تھے ،خاتم النبیین سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کیوں محبت نہ کروں ایک وہ میری پھوپھی کا بیٹا ہے ، دوسرا ہمارا دین ایک ہے ،پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہو؟ عرض کی حضور ! میں ان سے کیوں نہ محبت کروں یہ میرے ماموں زادہیں اور میرا اور ا ن کا دین ایک ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے زبیر! تم ان کے ساتھ لڑائی کروگے اور اس وقت تم ظالم ہوگے ۔ جنگ جمل میں جب آپ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے مقابلے میں آئے تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے انہیں وہ حدیث یاد کروائی تو فوراً جنگ سے الگ ہوگئے اور مصالحت کی کوششیں کیں جب کاوشیں کامیاب نہ ہو سکیں تو آپ یہاں سے چلے گئے وادی سبا میں پہنچے تو عین سجدے کی حالت میں ابن جرموز نے آپ کو شہید کردیا اور سر انعام کے لالچ میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے پاس لایا تو آپ نے فرمایا:’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ جو زبیر کو قتل کرے وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ ‘‘آپ رضی اللہ عنہ نے 10 جمادیٰ اخریٰ 36 ہجری کو جام شہادت نوش کیا۔ (مآخذ، صحیح بخاری، سیرت عبداللہ بن زبیر، اصابہ، ضیاء النبی، الریاض النضرۃ)