شبیر سومرو 

 

 

سندھ کی تین عورتیں، تین کہانیاں 

تھر میں علم کی آس:آسو بائی، لازوال قربانیوں کا پیکر 

اماں جندو اور سندھو کی لہروں جیسی جہدمسلسل ویرو کولھی

 

’’اکھروں میں بہت جان ہوتی ہے۔ہم جب بھی کوئی اکھر لکھتے ہیں تو وہ اتہاس کا انگ بن جاتے ہیں۔ آپ کے لکھے ہوئے اکھرکبھی بیکار نہیں جاتے، اس لیے کچھ بھی لکھنے یابولنے سے پہلے بہت سوچنا چاہیے۔پر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ لوگ اکھروں سے ڈر کر خود کو اِن سے دور کرلو۔ نہیں،بس یہ سمجھ لو کہ جب یہ آپ کے ہاتھوں سے نکل کرکسی تختی، سلیٹ یا کسی کاغذ پر نیا جنم لیتے ہیں تو پھر یہ اکھر(الفاظ) بولنے لگتے ہیں۔ اسی لیے میں یہ چاہتی ہوں کہ تم سب بچے لکھنا پڑھنا سیکھ لو۔ جب تمہارے ہاتھ کے لکھے لفظ بولنے لگیں گے توتمھیں ان سے ایسی محبت ہوجائے گی جو زندگی بھر ۔۔۔بلکہ ہماری تمھاری زندگی کے بعد بھی وہ محبت زندہ رہے گی۔اس لیے اب تم روز اس اسکول میں پڑھنے آنا۔ میں تمھیں پڑھا لکھا کر اگر بڑا آفیسر نہیں بنا سکی، تبھی بھی تم لوگ یقین رکھنا کہ اکھروں اور کاغذ کی کتابوں کا ادب تم لوگوں کو دنیا اور آخرت میں کامیاب کرے گا۔۔۔ چلو، اب اپنی کتابیں کھولو، مجھے کل کا سبق سنائو اور آج کا نیا سبق لے لو۔ شاباش!‘‘۔

وہ ابھی ابھی اپنی بیساکھی کی مدد سے پورے گوٹھ کا پھیرا لگا کر ’دان‘ لے آئی تھی اور اسے لکڑی کے مضبوط صندوق میں محفوظ کر کے، اپنے ان غریب شاگردوںکو پڑھانے بیٹھی تھی، جن میں سے کسی نے نہ تو پورالباس پہنا ہوا تھا اور نہ ہی کسی کے پاس صحرا کی انتہائی گرم ریت پر چل کر، اس چھپر اسکول سے گھر جانے لیے مناسب چپلیں تھیں۔ کئی بچوں کی قمیضیں پھٹی ہوئی تھیں اور بیشتر نے ایک رنگ کی قمیض اور دوسرے رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی۔ یہ غربت کے مستند مناظر تھے جو ہم سندھ کے صحرائی خطے تھر میں عام دیکھتے ہیں۔ 

 آسو بائی روز آ کر اس اسکول میں ان پچاس سے زائد بچوں کو اپنے حاصل کردہ علم میں سے روزانہ تھوڑا تھوڑا حصہ بانٹتی ہے ۔میڈیا کی مہربانی سے تھر اب کچھ کچھ بدلنے لگاہے۔مگر نہیں بدلا تو آسو بائی کا نصیب نہیں بدلا۔جس کے بدلنے کے لیے وہ امریکا تک سے ہو آئی اور اسی طرح کے آسرے لے کر حکومت وقت کے لکھ لُٹ سیاستکار بھی اس کے پاس آتے رہے کہ آسو بائی کے طفیل انھیں بھی میڈیا میںکوریج مل رہی تھی۔مگر اب ان کی شہرت کی وہ گردبیٹھ چکی ہے۔حالات پہلے والے ڈھرے پر آچکے ہیں۔چھپر اسکول، وہی چھپر اسکول ہی ہے، جس میںان بچوں کوجب گرمی لگتی تھی تو ان کا دل اسکول سے بھاگ جانے کو کرتا تھا، پر وہ بچے جب دیکھتے تھے کہ ان کی وہ استانی دھوپ، گرمی اور قہر کے ’کاڑھے‘(تپش ) میں بھی صبر شکر کر کے اس چھپر میں بیٹھی ہے ،جس کی گھاس پھونس کی چھت سے حیات آور بارش تو نہیں برستی البتہ جسموں کو جلادینے والی چلچلاتی دھوپ کے پیوند اُن کی کلاس میں اترتے ہیں اور سورج کے سفر کے ساتھ جگہ بدلتے ہوئے ہر بچے اور بچی کے سر پر باری باری تھپکیاں دیتے جاتے ہیں۔دھوپ کے وہی ٹکڑے، چھوٹے قد اور بڑے حوصلے والی ان کی استانی کے اوپر آکر ٹھہر جاتے ہیں،تب بھی وہ سانولے چہرے سے پسینے کی مسلسل ٹپکتی بوندیں اپنے پھولدار چھینٹ کے دوپٹے سے پونچھتی، بلیک بورڈ کے سیاہ آنگن پرسفید اکھروں کے انبار لگاتی جاتی ہے۔استانی آسو جو ایک ٹانگ سے معذور بھی ہے ۔جب علم دینے والی ایسی عالی ظرف ہو تو پھر علم لینے والوں کو بھی اپنے صبر کے ظرف کو کشادہ رکھنا ہوتا ہی ہے۔اس اسکول میں شہر کی عام درس گاہوں جیساکچھ بھی نہیں تھا۔نہ بجلی ،نہ پانی اور نہ ہی جائے ضرورت۔کیوں کہ یہ تو سرے سے بے در و دیوار سا ایک چھپر تھا، جس کے اندرکی کل کائنات، لکڑی کا ایک بورڈ اور ایک صندوق ہی تھا،جس پر آسو بائی اپنے تھر کے غریب شاگردوں کو روزانہ صبح پہلا جملہ یہ لکھ کر ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے:

’’اساں کھے پڑھنڑو آہے!‘‘

 (ہمیں پڑھنا ہے!)

اور پھربڑے شہر سے شایع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کو، چھوٹے شہر سے خبریں بھیجنے والے نامہ نگار نے ’ایکسکلیوسیو‘رپورٹ بھیجی:

’’تھر کے چھوٹے سے گوٹھ کی آسو بائی جو غریب بچوں کو علم دینے کے لیے بھیک مانگتی ہے‘‘

تب روایتی بھیڑ چال کی طرح پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا نے آسو کی مثالی ہمت اور جرأت کی فینٹسی جیسی حقیقی کہانی شائع کی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلاول زرداری نے خاص دعوت دے کر آسو بائی کوسندھ اسمبلی بلوایا اورانھیں وہاں اجرک پیش کرکے ان کی تعریفیں کر کے، روایتی سیاسی وعدے اور دعوے کیے گئے، جن میں ’کیا جائے گا، کریں گے‘ جیسے افعال کی تکرار ہوتی ہے:

’’آسو بائی کی معذوری کا علاج کروایا جائے گا‘‘

’’ان کے چھپر کی جگہ پکا اسکول بنوا کر دیا جائے گا‘‘

’’اسکول میں فرنیچر اور دیگر سہولیات دی جائیں گی ‘‘

اور’’ اسے اسی اسکول میں ملازم رکھیں گے، جہاں وہ پڑھا رہی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

اپنے چیئرمین کی دیکھا دیکھی سیاسی جماعت کے رہنمائوں نے بھی آسو بائی کے اسکول کے وزٹ کیے اور لفظوں کی جگالی کی۔ مگر عمل کے میدان میںہوا کچھ بھی نہیں۔آسو بائی اسی طرح معذوری کے عالم میں، اسی چھپر اسکول میں آج بھی دھوپ کے پیوندوں کے ساتھ علم کے ’اکھر‘رول رہی ہے!۔

ہاں مگر ملالہ۔۔۔وہی ملالہ کہ جس کی مذّمت کرتے ہم نہیں تھکتے، انھوں نے آسو بائی کے لیے وہ کچھ کیا، جو ممکن تھا۔انھیں امریکا بلوایا۔ عالمی فورمز پر انھیں پیش کر کے، ان کے علم پھیلانے کی حوصلہ افزا داستان دنیا کے سامنے لائیں، انھیں ایوارڈز دلوائے۔مگر بھلا امریکا گھومنے، ایوارڈز ملنے سے کیا ہوتا ہے؟آسو بائی کا اسکول تو وہیں اور ویساکا ویسا ہے!

آسو بائی تھری لڑکی ہے اور تھری قحط، بھوک اور پیاس کے عادی ہیں،وہ کبھی بھی ہمت نہیں ہارتے۔اس لیے وہ اب بھی اپنا سکول چلارہی ہے اور خود بھی مزید پڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔کاش! حکومت بھی آسو بائی سے کیے وعدے وفا کرتی اور اسے ایک اسکول بنادیتی۔ بے شک چھوٹا سا اور ویسا ہی، جیسے اسکول سندھ بھر میں بناکر وڈیروں کو دیے گئے ہیں تاکہ وہ ان عمارتوں میں اپنے مویشی باندھیں، ان اسکولوں کے نام پر اپنے کمداروں اور کارندوں کے علم دشمن بیٹوں کو سرکاری ٹیچر لگوائیںاور سرکاری فنڈز کھائیں۔۔۔مگر

            اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

اماں جندو

مائی جندو حیدرآباد تحصیل کے گوٹھ ٹنڈو بہاول کی بوڑھی خاتون ہیں، جن کے دو بیٹوں، داماد اور سات دیگر دیہاتیوں کوجو کھیتوں میں کام کر کے ابھی ابھی گھروں کو واپس آئے تھے، فورسز کے ایک دستے نے 5جون1992ء کی شام کو گھروں سے اغوا کیااور دریائے سندھ کے پار لے جا کر بلااشتعال فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔اس کے بعد انھیں پڑوسی ملک کے د ہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹوای دی گئی۔ان سے ’برآمد کردہ‘ غیر ملکی اسلحے میںبم، کلاشنکوفیں،گولیاںاور دھماکے دار مادہ بھی میڈیا پر دکھایا گیا۔ اس ظامانہ واقعے کو میڈیا میںسانحہ ٹنڈو بہاول کہتے ہیں،جس کے مرکزی کردار میجر ارشد جمیل اور ان کے ماتحت تھے۔شہداء میںمنٹھار، حاجی اکرم، بہادر، کنڈو، جاوید، غلام مصطفیٰ، شفیع محمد، ھملُو کولھی اور دھنی بخش شامل تھے۔ اس واقعے میں ایک شخص زخمی بھی ہوا تھا۔اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں’’ غیرملکی دہشتگردوں‘‘کے خلاف کامیاب آپریشن پر مبارک باد بھی دی تھی۔مگر شہداء کی وارث مائی جندو اور ان کی بیٹیاںانصاف کے حصول کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ پورے سندھ میں اس جعلی مقابلے کے خلاف سخت احتجاج شروع ہوگیا، جس کے نتیجے میں وقوعے کے 75گھنٹوں کے بعد8جون کوایک اور ایف آئی آر 92/42 مائی جندو کے عزیز اور اٹارنی دریا خان کی مدعیت میںکاٹی گئی۔شدید احتجاج کا سلسلہ سندھ بھر میں اماں جندو کی قیادت میں جاری رہا، جس میں سماجی اور سیاسی جماعتیں بھی شریک ہوگئی تھیں۔ یہاں تک کہ قاتلوں کو کورٹ مارشل ہونے کے کئی سال بعد بھی سزا دینے میں جب آنا کانی ہوتی رہی تو اپنے شہیدوں کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے، مائی جندو کی دو بیٹیوں حاکم زادی اور زیب النساء نے حیدرآباد میں سرعام خود پر پیٹرول چھڑک کر خودسوزی کرلی تھی۔

ٹنڈوبہاول کے المناک واقعے کے خلاف سندھ میں شدید احتجاج کی رپورٹ جب مقامی اور عالمی میڈیا میں تصویروں کے ساتھ شایع ہوئی تھی تو وزیراعظم نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ سے 24جون 1992ء کو جی ایچ کیو میں ملاقات کر کے واقعے پر تبادلہِ خیالات کیا،جس کے بعد ان کے جاری کردہ بیانات میں سانحہ ٹنڈو بہاول کے حقائق سے متعلق تاخیرسے آگاہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا گیاتھا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحقیقات کیں اور اس کے نتیجے میں میجر ارشد جمیل اور ان کے 14ساتھیوں کو ذمہ دار قرار دیاگیا۔جس پر آرمی چیف نے ان سب کا کورٹ مارشل کرنے کاحکم دیا۔ میجر ارشد جمیل و دیگر پر مقدمہ چلا کر فردِ جرم عائد کی گئی۔جس میں چوری شدہ پک اپ میںغیر ملکی اسلحہ لادنے،بے گناہ دیہاتیوں کو اغوا کرنے، انھیں جعلی مقابلے میں قتل کرکے، ان پر مقدمہ قائم کروانے کے الزامات تھے۔بریگیڈیئر شوکت کی سربراہی میںفیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی میں عینی گواہوں نے میجر ارشد اور ان کے ایک افغانی ساتھی محی الدین کے ساتھ سپاہیوں کی بھی شناخت کی۔ملزمان کے خلاف 30جولائی1992ء کو گواہیاں مکمل ہوئیں اور 29اکتوبر1992ء کو کورٹ نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور ان کے تیرہ ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ایک ملزم لانس نائیک شیر صمد خان کو بری کردیا گیا۔اس دوران سویلین ملزم محی الدین پولیس حراست میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کرچکا تھا۔بعد میں آرمی چیف نے میجر ارشد جمیل کی رحم کی اپیل مسترد کردی تھی۔اس دوران مائی جندو اور سماجی و سیاسی حلقوں کا احتجاج مسلسل جاری رہا۔صدر فاروق لغاری نے بھی 31جولائی 1995ء کو رحم کی اپیل رد کردی۔بڑے مجرم کے ساتھ 7اگست 1995ء کو لواحقین کی آخری ملاقات کروانے کا لیٹر حیدرآباد جیل کو موصول ہوا۔اس کے بعد بھی اس کے وکلاء اس کو معافی دلانے کے لیے کوشاں رہے۔27ستمبر کو مائی جندو ، ان کے خاندان کی باقی ماندہ خواتین، سول سوسائٹی والوں نے مل کر ایوان صدر کے سامنے اس بات کے خلاف احتجاج کیا کہ صدر مملکت نے قاتل کی سزا پر عمل درآمد کو دو مرتبہ رکوایا ہے۔انھیںایوانِ صدر میں بات چیت کے لیے بلوایا گیا، جہاں ڈی جی قانون بریگیڈیئر (ریٹائرڈ )احمد جہاں زیب نے انھیں بتایا کہ میجر ارشد جمیل کے بھائی اور دیگر نے انھیں غلط اطلاعات دی تھیں کہ شہدا کے ورثاء سے تصفیہ ہوگیا ہے۔مگر اب قاتل کو مزید مہلت نہیں دی جائے گی۔مگر اکتوبر میں سپریم کورٹ نے قاتل کے بھائی کی درخواست پر پھانسی کے خلاف حکم امتناع جاری کیا،جس پر شہدا کے ورثاء مایوس ہوگئے اور احتجاج میں مزید شدت آگئی۔ ان پر علاقے کے بیشتر وڈیروں اور سیاسی رہنمائوں کا دبائو تھا کہ میجر ارشد کو معاف کردیں تو انھیں خوں بہا کے طور پر ان کی منہ مانگی رقم ادا کی جائے گی مگر مائی جندو نے یہ پیشکش اور دبائو ٹھکرا دیا۔اس کے باوجود ’بااثر ‘اور بڑے لوگوں نے قاتل کی حمایت ترک نہ کی اور دبائو بڑھاتے رہے۔انھیں غلط طور پر یہ بھی بتایا گیاکہ اگر آپ معاف نہیں کریں گے ،تب بھی پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 14اگست 1997ء کو حکومت قاتل کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دے گی۔ اس پر مائی جندو کی بیٹیوں حاکم زادی اور زیب النساء نے اعلان کیا کہ ہم اس سے ایک سال پہلے ہی خود سوزی کر کے اپنی زندگی ختم کر دیںگی۔انھوں نے یکم ستمبر کو اپنے اعلان کا اعادہ کیااور 11ستمبر 1996ء کودونوں لڑکیوں نے حیدرآباد کی جی او آر کالونی میں واقع، انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے سرِعام خود کو آگ لگالی۔انھیں فوری طور پر اسپتال میں داخل کرادیا گیا۔دوسری جانب مائی جندو اور ان کی حمایت کرنے والی سوشل ایکٹوسٹ فہمیدہ قریشی کوسول کورٹ کے حکم پر گرفتار کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ان کے اکیلے رہ جانے والے بیٹے ممتاز،نواسے سجاد اور داماد فیروز کو نارا جیل بھیج دیا گیا۔فہمیدہ قریشی کے ایک درجن عزیزوں اور ڈھائی سو ہاریوں کو بھی جھوٹے مقدموں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔اس دوران خود سوزی کرنے والی مائی جندو کی دونوں بیٹیاںاسپتال میں انتقال کر گئیں۔6اکتوبر کو سپریم کورٹ نے قاتل کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔بالآخر 28اکتوبر1996ء کو مائی جندو کی جدوجہد رنگ لے آئی اورمیجر (ر)ارشد جمیل کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔اس موقع پر شہداء کے بیشتر ورثاء پھانسی گھاٹ میں موجود تھے۔مگر اس دن مائی جندو وہاں نہیں تھیں کیوں کہ انھیں جیل سے لایا نہیں گیا تھا۔جب انھیں قاتل کے پھانسی چڑھ جانے کی اطلاع ملی تو انھوں نے ایک قیدی عورت سے سنگھار کا سامان مانگا، اپنا سنگھار خود کیا اور جھومر ڈالنے لگیں مگر چند ہی لمحوں میں وہ بے ہوش کر گر پڑیں۔5نومبر کو صدر لغاری نے پی پی حکومت ختم کردی اور چند دن بعد مائی جندو اورفہمیدہ قریشی سمیت سب کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔اس کے باوجود مائی جندو کے بیٹے اور نواسے کو ایک سال اور قید رکھا گیاتھا۔ ساڑھے تین سال بعد ان سب پر قائم تمام جھوٹے مقدمات ختم کیے گئے۔حکومت کی جانب سے ٹنڈو بہاول سانحے کے شہدا کے ورثاء کو 24-24ایکڑ زرعی زمین اور تین تین لاکھ روپے امداد دی گئی۔ یہ زمین ٹھٹہ میں ایسے مقام پر دی گئی ،جہاں نصف صدی سے دریائی پانی نہیں آیاتھا!۔1995ء میں جو سمندری طوفان آیا ، وہ زمین اس میں سمندر برد ہوگئی۔مائی جندو نے ایک بار جدوجہد شروع کی تاکہ انھیں گذارے لائق امداد مل سکے۔ اس میں معروف اردو ادیب جمیل جالبی مرحوم کے لائق فرزند خاور جمیل نے ان کی مدد کی جو اس وقت جام شورو کے ڈی سی او تھے۔ اس طرح مائی جندو اور شہداء کے دیگر ورثاء کو تقریباً 55لاکھ روپے امداد ملی۔یہ معمولی رقم ان کے بچوں بچیوں کا بدل تھی!

اس سانحے میں نو مرد شہید ہوئے، تین عورتوں نے خودکشی کی اور 34بچے بچیاں یتیم ہوئیں۔

مائی جندو آج بھی بقیدِ حیات ہیں۔ پورا سندھ انھیں احترام اور محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اب انھیں اماں جندو کہا جاتا ہے۔

یرو کولھی

’’میں نے عمرکوٹ میں زمیندار کی قید میںدو سال کام کیا۔مگر ہر سال زمیندار جب حساب کتاب کرتا تو مجھے میری محنت مشقت کے عیوض اجرت اور اناج دینے سے صاف انکار کردیتا۔مجھ جیسے قیدی کسانوں کو اس کی زمین اور کوٹ (قیدخانے)کے علاوہ کہیں اور آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ایک دن پھر ایسی زیادتی ہوئی کہ مجھے میری اجرت ملی اور نہ ہی کھانے کے لیے دانے دیے گئے، تب میں نے سوچا کہ اب مجھے یہاں نہیں رہنا۔میں نے شوہر سے کہا کہ میں کسی دن موقع پاکر یہاں سے نکل جاؤں گی۔ اس نے کہا کہ تمھارے پاس کرایہ تک نہیں ہے۔ تم کہاں جاؤ گی، کہیں کھو نہ جاؤ۔ میں نے کہا کوئی پرواہ نہیں۔ میں اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ کر انھیں کہوں گی کہ زمیندار کا قرضہ ادا کروتاکہ وہ میرا پیچھا نہ کرے۔اس طرح ایک روز دوپہر کومیں کمدار کی نظرسے بچ کر نکل آئی ۔جلتے سورج کی تپش میں ننگے پائوں کئی میل پیدل چل کر کنری شہر پہنچی۔وہاں جاننے والوں کی مدد سے میں اپنے بھائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔۔۔میں آزاد ہوگئی‘‘۔

آج ساٹھ سالہ ویرو کولھی آزاد ہیں۔ان کے چھوٹے سے گھر میں صبح سے دوپہر تک گوٹھ کے غریب بچوں کے لیے مفت اسکول چلتا ہے۔ ایک کمرے سے آنے والی معصوم آوازیں’’اے فار ایپل، بی فار بک‘‘آدھے دن تک گونجتی رہتی ہیں۔ایسے وقت ویرو کولھی اپنے قائم کردہ اس چھوٹے سے اسکول کے باہر چوکی پر بیٹھی، پیالے سے چائے کی چسکیاں لے کر مسکرا رہی ہوتی ہیںکہ انھوں نے کئی برس جبری مشقت میں گذارنے کے بعد بالآخر قید سے چھٹکارہ حاصل کرلیاہے۔ زمینداروں کے ہاں جبری مشقت کرنے والے کسانوں کو آزاد کرانے کی ان کی جدوجہد کے باعث، انھیں انسانی حقوق کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا جاچکاہے اور اس سے قبل ویرو کولھی کو امریکا میںفریڈرک ڈگلس فریڈم ایوارڈ بھی دیا گیاہے۔

اماںویرو کولھی نے اپنے دو کمروں کے گھر میں سے ایک کمرے کو اپنی کمیونٹی کے غریب بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کردیا ہے۔ زمینداروں کے پاس کسانوں کے یرغمال ہونے سے متعلق وہ کہتی ہیں:

’’ہمارے لوگوںمیں ’تالیم‘ نہیں ہے ، اس لیے تم سمجھو، کہ وہ اندھے ہیں۔ زمینداراور اس کے کمدار کو اس لیے طاقت ہے کہ وہ پڑھے لکھے ہیں۔ان کے بچے بھی پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ہاری جب قرض مانگتا ہے توزمینداراس کو 5 سو روپے دیتا ہے اور لکھتا ہزار روپے ہے۔ اسی لیے وہ اپنے پیسوں کے بدلے، ہم جیسے ان پڑھ ہاریوں سے کام بھی لیتا ہے اورہمیشہ ہمیں اپنا قرضدار بھی بنا کر قیدی کرکے رکھتا ہے۔ہم جیسے جو ہاری کٹنب (کنبے)اس کی قید میں آجاتے ہیں، زمیندار اور اس کے بیٹوں کی گندی نظریں ہماری جوان بچیوں پر ہوتی ہیں‘‘ ۔

ویرو کولھی نے جب ایک دن غلامی کی زنجیر توڑ کر قید سے نجات حاصل کی تو اس کے بعد اس کے بھائی اس کے آزادی کے بدلے پیسے لے کر اس زمیندار کے پاس گئے تھے کہ ان کی بہن کا پیچھا چھوڑدے:

’’میرے بھائی اپنے مال مویشی بیچ کر 20 ہزار روپے لے کر زمیندار کے پاس پہنچے تھے ۔ لیکن زمیندار نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ قرضہ چار لاکھ روپے ہے۔ اس کے ساتھ اس نے یہ بھی مطالبہ کیاتھا  کہ ویرو کو لا کرہمارے حوالے کرو تاکہ اس کو گولی مار دیں‘‘۔

ویرو کولھی کو ایوارڈ سے جو رقم ملی تھی،اس سے اس نے دو کمروں کایہ گھر بنوایا ۔بچ جانے والی رقم اس نے  جبری مشقت سے رہا ہوجانے والے کسانوں کی بحالی کے لیے وقف کردی تھی۔

ویرو کا بھائی اس کی آزادی کے بعد اسے لے کر انسانی حقوق کے کمیشن کے پاس آیا تھا۔ کمیشن کی جانب سے ایس ایس پی عمرکوٹ کوایک خط لکھاگیا۔ ویرو اور اس کا بھائی وہ خط لے کر رات کو چھپتے چھپاتے عمرکوٹ پہنچے لیکن ایس ایس پی چھٹی پر تھا۔ انھوں نے دو دن دفتر کے احاطے میں ہی گذار دیے۔ بالآخر ایس ایس پی آیا اور اس سے ملاقات ہوئی،اس نے احوال سنا تو وہ ان کے ساتھ روانہ ہوگیااور زمیندار کے جبری کیمپ پہنچا۔اس نے ویرو سے کہا کہ وہ جگہ دکھائو ،جہاں تمھیں رکھا گیاتھا۔ویرو بتاتی ہیں:

’’ایس ایس پی وہاں آیا تو میری کھولی میںبھوسے والی جلی ہوئی روٹیاں پڑی تھیں۔ اس نے کہا کہ تم لوگ یہاں یہ کھاتے ہو؟۔ میں نے بتایا کہ یہاں یہ بھی مشکل سے ملتی ہے۔ ایس ایس پی نے وہاں سے 45 ہاریوں کو رہا کرایااور تھانے لے جاکر ان کے بیان لکھوائے۔یہ وہی تھانہ تھا،جہاںمجھے ایس ایچ او نے دودن تک ماراتھا کہ میں اسی زمیندار کے پاس واپس جاؤں۔ میں نے اسے کہاتھا کہ تم مجھے یہاں بے شک مار ڈالو۔۔۔پرمیں واپس نہیں جاؤں گی۔ آخرکار انھوں نے مجھے چھوڑدیاتھا‘‘۔

اس کے بعد ویرو کولھی آزادانہ محنت مزدوری کرنے لگیں اور ساتھ ہی زمیندار کے پاس یرغمال  کسانوں کی رہائی کے لیے بھی کوششیں کرتی رہیں۔ اپنی مسلسل کوشش سے انھوں نے 400 کسان عورتیں اور مرد رہا کروائے۔اسی کارنامے پر کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم گرین رورل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے انھیں فریڈرک ڈگلس فریڈم ایوارڈ کے لیے نامزد کیاتھا۔

کسانوں کے مسائل بعد میں ویرو کولھی کو سیاسی میدان میں لے آئے اور انھوں نے گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انھیں چھ ہزار ووٹ ملے تھے مگر وہ جیت نہ سکیں۔ویرو کولھی کے مطابق ان کی انتخابی مہم کے دوران ان پر حملے کروائے گئے لیکن وہ ڈری نہیں۔ پھر انھیں مقابل امیدوار کے حق میں  دستبردار ہونے کے بدلے میں 2 کروڑ روپے کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے مسترد کردی۔انتخابات کے بعد ان پرجھوٹے مقدمات قائم کیے گئے اور انھیں دو بار جیل جانا پڑا۔ مگر دونوں مرتبہ عدالت نے انھیں باعزت بردی کردیا۔ اماں ویروکے حوصلے اب اور بلند ہوچکے ہیں اور وہ کہتی ہیں :

’’میں پہلے بھی وڈیروں سے خوفزدہ نہیںتھی اور نہ میںسیاست دانوں سے ڈرتی ہوں، اس لیے اگلی بار پھر میں ’الیشن‘میں کھڑی ہونگی اور جیت کر دکھائوںگی‘‘۔