جیسے ہی خبر نظر سے گزری‘دل للچایا‘محنت کی جستجو ابھری‘ خواہش پر دم نکلا‘دفعتا خانہ دل سے صدا اٹھی:دل ہے شب سوختہ سو اے امید...تو ندا سی کہاں سے آتی ہے!! محترم اشرف شریف کے ایک کالم کی سطر دماغ میں ابھری’’وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر نے کاروبار میں اپنا لوہا منوایا ‘‘-آپ سوچتے ہونگے کہ خبر کیا ہے؟ فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں مزید 234 افراد ارب پتی بن گئے‘ ان افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں‘ متذکرہ خبر پر جاگتی آنکھوں کے سپنے دیکھنے میں مشغول تھاکہ یاد آیا وطن عزیز میں مہنگائی کی شرح 45.5فیصد ہے‘27فیصد سے زائد افراد خط غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کر رہے تھے جبکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد یہ شرح نا جانے کس قیامت خیز ہندسے کو چھو رہی ہوگی؟ خدا کی پناہ ہمارے حکمران عوام کا سوچنے کو تیار نہیں۔ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نیپرا نے بجلی کی قیمت میں 4.34روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دیدیہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے آٹھ نئے معاون خصوصی مقرر کردئیے‘ کیا ظلم کی کوئی حد ہوتی ہے؟ رواں ماہ بجلی کے موصول ہونیوالے بلز پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے‘کوئی ایسا نظر نہیں آتا‘جو ان بلز پر آنسونہ بہا رہا ہو۔صنعت کاروں نے اپنے ورکرز کیساتھ سڑکوں پر احتجاج شروع کردیاہے۔ کاشتکار بھی مجبور ہوکر سڑکوں پر ہیں‘ متعدد ملیں بند ہوچکی ہیں‘ ہزاروں‘لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں‘گزشتہ روز وزارت خزانہ نے وزیر اعظم کو سیلاب کے ضمن میں رپورٹ ارسال کی‘اس میں چھ لاکھ افراد کے صرف ترقیاتی و تعمیراتی منصوبوں پر کام تعطل کا شکار ہونے کے باعث بیروزگار ہونے کا ذکر کیا گیا۔ وطن عزیز کو سیلاب سے 12ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر 9.2بلین ڈالر کم ہوگئے‘آئی ایم ایف سے قسط صرف غالبا 1.2ارب ڈالر آنی ہے‘اب خود اندازہ لگا لیجئے کہ ملک کتنے اور کس قسم کے سنگین معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہے‘ سیلاب کی آفت سے جہاں تاریخ کا بلند تر نقصان ہوچکا وہاں حکومت مہنگائی کو کم کرنے کی بجائے سارے مشکل فیصلوں کا بوجھ عام آدمی پر منتقل کررہی ہے‘کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم مزید معاون خصوصی مقرر کرنے کی بجائے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے احکامات جاری کرتے۔پٹرولیم مصنوعات اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کیلئے اعلان اور ریلیف پیکیج دئیے جاتے مگر ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل‘ان کی محرومیوں‘دکھ و درد سے کوئی سرورکار نہیں‘اگر ہوتا تو سیلاب کے بعد متاثرین اس بری طرح آہ و فغاں نہ ہوتے۔ جس قسم کی خبریں، مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں‘ سیلاب متاثرین تاحال امداد کے حوالے سے سراپا احتجاج ہیں‘سب سے زیادہ شکایات سندھ سے آرہی ہیں‘ بلوچستان کا تو کچھ پوچھئے مت‘پنجاب اور کے پی کے میں بھی صورتحال زیادہ اچھی نہیں‘ حکومت عمران خان پر سیلاب کے حوالے سے سیاست کرنے کا الزام عائد کرتی ہے لیکن گزشتہ اتوار جب عمران خان نے سیلاب متاثرین کیلئے دوسرا ٹیلی تھون کیا تو حکومت کیسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی‘ اس سے حکومتی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ,ثابت ہوا: حکومت خود سیاست کرنے میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ سیلاب متاثرین کی ابتر حالات زار پر ہونیوالے سوال پر شدید برہم ہوگئے‘ کاش وہ سیلاب متاثرین کو ریلیف بہم نہ پہنچانے والوں پر برستے!! سیلاب متاثرین میں وبائی امراض بری طرح پھیل چکے ہیں۔اکثریت کے پاس خیمے تک موجود نہیں‘حیرت ہے: وزیر اعظم اور حکومت حد سے زیادہ  فلڈ ریلیف کے دعوے کرتی نہیں تھک رہی‘جبکہ سیلاب متاثرین کی سامنے آنیوالی ویڈیوز میں ان کے آنسو نہیں رک رہے‘آخر یہ کیا تماشہ ہے؟ اس کا حل کس کے پاس ہے؟ درحقیقت پی ڈی ایم میں شامل تمام حکمرانوں کو سیلاب متاثرین کی جتنی فکر ہے‘اس کا اندازہ ان کی روز سامنے آنیوالی گفتگو سے ہوجاتا ہے۔پی ڈی ایم میں ن لیگ‘پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام ف بڑی جماعتیں ہیں‘ مولانا فضل الرحمن کو سیلاب متاثرین کا دکھ زیادہ محسوس نہ ہوسکا‘ آصف علی زرداری کی کیفیت بھی زیادہ مختلف نہیں‘ گویا سیلاب متاثرین وبائی امراض کا شکارہوں یا بنیادی ضروریات زندگی طلب کریں‘ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ہماری 75سالہ تاریخ حکمرانوں اور بالادست طبقات کی عدم توجہی‘خود غرضی اور فریب پر مبنی ہے‘ آئی ایم ایف نے حکومت سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کرنے, عام آدمی کو کچلنے کی ہر پالیسی پر عمل کروایا, موجودہ حکمرانوں نے اس پر خوشدلی سے عمل کیا‘ جب انہیں عوام کی کوئی فکر نہیں‘ایسے فیصلوں سے اجتناب کیوں برتا جاتا۔ اکثر لوگ سوال کررہے ہیں کہ ایک طرف ملک میں سیلاب متاثرین کیلئے بین الاقوامی امداد آرہی ہے اور دوسری طرف ڈالر کی اڑان ایک مرتبہ پھر رکنے کا نام نہیں لے رہی‘مسئلے کو جنہوں نے حل کرنا ہے‘انہوں نے اسے معمہ بنا رکھا ہے۔حقائق نا سہی مگر خدشات کی بنا پر نجی بنکوں سے تحقیقات کرکے اس مسئلے کو بڑی حد تک حل کیا جاسکتا ہے!پاکستان کو اللہ رب العزت نے معدنیات سے مالا مال کر رکھا ہے‘ہماری جیو سٹریٹجک حیثیت کسی سے پوشیدہ نہیں‘سی پیک‘ون بیلٹ‘ون روٹ جیسے منصوبے ہماری ترقی کو عملی جامعہ پہنا سکتے ہیں‘ ہر پاکستانی اپنی خواہش‘محنت‘لگن‘نصیب کی بنا پر اللہ رب العزت سے مدد طلب کرتا ہوا ترقی کی منزلوں کو طے کرسکتا ہے‘یہ زیادہ دور کی بات نہیں‘ صرف ایک سال کے اندر ہم دنیا میں سامنے آنے والے نئے ارب پتی افراد میں کئی پاکستانیوں کے نام دیکھ سکتے ہیں‘ ان میں عام آدمی‘اس کا بیٹا‘بیٹی سب شامل ہوسکتے ہیں‘ خواتین مرد سب اس صف میں شامل ہونیکی اہلیت بھی رکھتے ہیں مگر بحران دراصل مٹھی بھر اشرافیہ، انکے مخصوص و چیدہ چیدہ سہولت کاروں کا ہے‘ایک اچھا‘مخلص حکمران آجائے‘ہماری ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔عمران خان کو نوجوان‘پڑھا لکھا طبقہ‘مڈل کلاس‘مزدور‘خواتین اور سب اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں، وگرنہ اس سے زیادہ ستم ظریفی کیا ہوگی کہ اپنی کرتوتوں کے باعث سیلاب سے متاثر، تباہ ہونیوالوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر روزانہ مسیحائی کا ڈھول پیٹتے ہیں‘ہم نہیں کہہ سکتے‘البتہ خود جناب خواجہ آصف نے کہا تھا:کوئی شرم کوئی حیاء ہوتی ہے! واقعی؟