پنجاب میں دس سال اور مرکز میں پانچ سال حکومت کرنے کے بعد بالآخر شریف حکومت 31مئی کو اپنے انجام کو پہنچی۔کارکردگی کا جائزہ عوام آنے والے انتخابات میں اپنی بساط کے مطابق لیں گے لیکن لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے جس بیان پر میاں شہباز شریف نے اپنی حکومت کا اختتام کیا ہے اس کا ذکر کرتے رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ ہی تھا2013 ء میں مسلم لیگ (ن) نے جس کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا اور گزشتہ پانچ سال اسی نعرے کی آڑ میں نہ صرف پیپلز پارٹی کی دھلائی کرتے رہے بلکہ ملک سے اندھیرے مٹانے کے اشتہارات اور پھر پاور پلانٹس کی تنصیب پر کھربوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے اور اب موصوف انتہائی معصومانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ ہماری حکومت ختم ہونے کے بعد اگر لوڈ شیڈنگ ہوئی تو مجھے، میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔انکا یہ جملہ سن کر مجھے بچپن میں محلے کی کرکٹ یاد آ گئی۔ جس بچے کا بیٹ ہوتا تھا اسکو پہلی باری نہ دی جائے یا پھر وہ لمبی باری نہ کرسکے تو وہ بیٹ لے کر گھر بھاگ جاتا تھا کہ صرف اس کا حق ہے کہ وہ مسلسل کھیلے۔کچھ اسی قسم کی بو شہباز شریف کے بیان سے آ رہی ہے کہ ہم ہیں تو لوڈ شیڈنگ نہیں ہے ہم نہیں ہوں گے تو پھر آپ کو یہ عذاب بھگتنا ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ عوام کو اپنے الوداعی خطاب میں بتاتے کہ انہوں نے عوام کے لئے کیا کچھ کیا ہے جس کے ثمرات انہیں آئندہ نصیب ہوتے رہیں گے۔لیکن خادم اعلیٰ نے کوتاہ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کیا کہ انکا نظریہ عوام کی خدمت نہیں بلکہ حکومت کرنا ہے۔اگر وہ حکمران نہیں تو عوام اور ملک بھاڑ میں جائے۔اس قسم کی سوچ کا دوسرا فطری نتیجہ یہ ہو گا کہ شریف خاندان اقتدار سے جتنا دور رہے گا اتنا انکے رویے میں غصہ بھرتا جائے گا۔ اس کا ایک ثبوت گزشتہ جولائی میں میاں نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد انکا بیانیہ یا ہرزہ سرائی ہے جو وہ قومی اداروں اور سیاسی مخالفین کے بارے میں کر رہے ہیں۔خلائی مخلوق پر الزام دھرنے والا شریف خاندان لگتا ہے ہے کسی اور سیارے کی مخلوق ہے اور یہاں صرف حکمرانی کا حق لے کر آئی ہے۔اپنے اسی رویے کی وجہ سے جلا وطنی بھی گزاری اور اب جیل کے دروازے پر ہیں لیکن عام آدمی کی طرح رہنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں ہے ۔اس موقع پر مجھے ڈاکٹر ایلس سلور کی انسانی ارتقاء کے حوالے سے 2013ء میں کتابی صورت میں پیش کی گئی تھیوری یاد آ رہی ہے جو ایک بارپھر اس سال اپریل سے پوری شدو مد کے ساتھ سائنسدانوںمیں موضوع بحث ہے جس میں انہوں نے انسان کو زمینی مخلوق ماننے سے انکار کیا ہے۔ اپنے مئوقف کی تائید میں انہوں نے کافی ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔بنیادی دلیل یہ ہے کہ اتنا عرصہ زمین پر رہنے کے باوجود انسان زمینی ماحول سے ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکا جب کہ دوسری ساری مخلوق زمینی ماحول سے ہم آہنگ ہے۔ وہ درجہ حرارت کی تبدیلی سے اس طرح متاثر نہیں ہوتے جس طرح انسان ہوتا ہے۔ دوسری جاندار زمینی مخلوق کو اتنی بیماریاں بھی نہیں ہیں جتنی انسانوں کو ہیں بلکہ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے جبکہ دوسری مخلوقات بہت کم اور معمولی بیمار ہوتے ہیں۔کشش ثقل کے اثرات انسانی جسم پر بیان کرتے ہوئے انہوں نے انسانی کمر اور جوڑوںکے مسائل چھیڑے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ جس سیارے سے انسان کو یہاں بھیجا گیا ہے وہاں کشش ثقل نسبتاً کم تھی اور انسان بوجھ اٹھانے اور چلنے پھرنے میں بہت کم طاقت کے ساتھ کام لے سکتا تھا۔ اسی طرح سے انسانی جلد سورج کی تپش سے خراب ہوتی ہے جبکہ دوسری مخلوق کی نہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ایک ایسے سیارے کی مخلوق ہے جہاں درجہ حرارت کم اور موسم مسلسل خوشگوار ہے۔ پھر انسانی آرام پسندی کو بھی انہوں نے زمینی مخلوق کی خوبی نہیں بتایا بلکہ یہ ایک ایسے ماحول کی نشاندہی کرتی ہے جہاں پر کھانے کمانے کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔اگرچہ ڈاکٹر ایلس سلور کی تھیوری کافی متنازعہ ہے لیکن تھوڑا غور کرنے سے زمینی مخلوق کی اکثریت تونہیں لیکن ایک خاص تعداد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔جو نہ دھوپ میں پھرنے کے عادی ہیںنہ ہی محنت مشقت انکی عادت رہی ہے۔نہ انکو عام آدمی والی بیماری لگتی ہے۔ ان کو اقتدار میں رہنے کی بیماری ہے اور یہ بیماری اقتدار سے باہر ہونے کے بعد شدت اختیار کر جاتی ہے جس سے انکے دماغ پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ ہذیان بکنے لگتے ہیں۔جیسے کہ مجھے کیوں نکالا،خلائی مخلوق زمین پر آ چکی ہے، لوڈ شیڈنگ ہمارے جانے کے بعد ہوئی تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹر ایلس کی تھیوری سے جہاں اختلاف کی گنجائش نکلتی ہے وہ انکی یہ تحقیق ہے کہ انسان جس سیارے کی مخلوق ہے وہاں اس سے کوئی ایسی فاش غلطی ہوئی ہے کہ اسے وہاں سے سزا کے طور پر زمین جو کہ شاید اس سیارے کی جیل کا درجہ رکھتی ہو پر بھیج دیا گیا ہے۔اختلاف اس لئے ہے کہ اس زمین پر جو مخلوق رہتی ہے وہ زیادہ تر تو خوش و خرم ہے کیونکہ اسی زمین کے انسان وہاں پر عوامی خدمت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں لیکن اس زمینی سیارے کے جس حصے میں دوسرے سیارے کے لوگ حکمرانی کر رہے ہیں وہاں پر مخلوق خدا سزا وار ٹھہری ہے۔کیا انکی سزا2018 ء کے انتخابات کے بعد ختم ہو پائے گی اس کے لئے بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی مخلوق بھی دوسرے ممالک کی طرح خوش و خرم اور صحت و تندرستی کے ساتھ رہ پائے اور حکمرانی مخلوق اپنے سیارے پر واپس چلی جائے۔