اخبار میں آیا ہے کہ اللہ کے کسی بندے کو شارع عام پر سگریٹ پینے پر پولیس نے دھر لیا اور جرمانہ عائد کر دیا۔ خبر پڑھتے ہی ہم نے اپنی سگریٹ کی ڈبیہ ٹٹولی اور اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس ہمیں بھی دوسروں کے سامنے سگریٹ پینے اور انہیں سموکنگ کے ذریعے نقصان پہنچانے پر جرمانہ نہ عائد کر دے۔ ہمیں جرمانہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں جیسی کرنی ویسی بھرنی کا محاورہ ہم نے سن رکھا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آدمی جو بوتا ہے جلد یا بدیر وہی کاٹتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک سگریٹ ہی پہ کیا موقوف‘ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ پڑھ رکھا ہے جس نے خود کو پہچانا اس نے اللہ کو پہچانا۔ جتنا مشکل اپنے آپ کو پہچاننا ہے اتنا ہی دشوار اللہ کو پہچاننا ہے۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ جتنا ہم نظر آتے ہیں اس سے زیادہ نظر نہیں آتے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا باطن پوشیدہ اور ظاہر عیاں ہے۔ اللہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے وہ جتنا عیاں ہے اس سے کہیں زیادہ نہاں ہے۔ اس لئے کہ وہ ظاہر ہی نہیں باطن بھی ہے۔ دیکھیے بات اونٹ سے چلی اور عرفان حقیقت تک پہنچی۔ اصل میں بات سے بات نکلتی ہے اور نکلتی ہی چلی جاتی ہے۔ ہم نے یونیورسٹی میں اپنے زمانہ طالب علمی میں نفسیات کا مضمون لیا تھا ہماری مس روزانہ نئے چمکیلے اور بھڑکدار لباس میں آتی تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں حاضری رجسٹر اور ایک فائل ہوتی تھی جس میں ان کے لیکچر کے نوٹس رکھے ہوتے تھے وہ حاضری لے کر ان ہی نوٹس کی روشنی میں لیکچر دینے لگتی تھیں۔ لیکچر کیا تھا گرین لائن ٹرین تھی جو فراٹے بھرنے لگتی تھی ہم طالب علموں کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا تو مجبوراً ہم ان کے لباس کی تراش خراش میں بقول منیر نیازی ؎ منیر حسن باطنی کو کوئی دیکھتا نہیں نگاہ چشم کھو گئی لباس کی تراش میں یہ سلسلہ زیادہ دنوں نہ چل سکا اور ہم نے نفسیات کے مضمون کی جگہ عمرانیات کا مضمون لے لیا۔ وہاں کیا پڑھا استاد کے لیکچر سے کیا کچھ اخذ کیا۔ کچھ بھی یاد نہیں۔ ہمیں پروفیسر انصار قزلباش یہ مضمون پڑھاتے تھے ۔سفید براق سفاری سوٹ میں ملبوس ‘ ہاتھوں میں پان کی ڈبیہ ہونٹ لال‘ بال پیچھے کی طرف الٹے ہوئے۔ چلتے تھے تو بھاری ڈگ بھرتے ہوئے کیمپس میں ان کا مکان تھا‘ مکان کے ساتھ ایک باغ تھا جس میں مختلف قسم کے پھلوں کے درخت اور پودے تھے۔ قزلباش صاحب کچھ روحانیات کچھ عملیات سے بھی واقف تھے۔ ایک بار ان کے گھر گیا تو دعا تعویذ کرانے والوں کا ازدحام تھا۔ ہر ایک کو وہ پانی دم کر کے بوتلوں میں دے رہے تھے جی چاہا ان سے پوچھوں سر یہ کیا ماجرا ہے؟ لیکن ہمت نہ ہوئی پھر ان کے گھر جانا نہ ہو سکا۔ یونیورسٹی کے دن بھی خوب تھے ایک سے بڑھ کر ایک استاد ملا۔ کئی ایک کے بارے میں تو میں خاکے لکھ چکا ہوں جو میری دو کتابوں ’’کوئے دلبراں‘‘ اور ’’اوراق ناخواندہ‘‘ میں دیکھ جا سکتے ہیں۔ یہ خاکے اسی لئے لکھے گئے کہ ہمارے ملک میں احسان شناسی اور احسان مندی کی روایت ذرا کم کم ہے۔ اس خیال سے میں نے الطاف حسن قریشی مدیر اردو ڈائجسٹ پر کتاب ’’الطاف صحافت‘‘ مرتب کی۔ شکر خدا کا کہ اس کی بہت پذیرائی ہوئی الطاف صاحب کی زندگی ہی میں انہیں خراج تحسین پیش کر دیا گیا۔ اللہ الطاف صاحب کی عمر دراز کرے(آمین) ہمارے ہاں بدقسمتی سے احسان مندی اور احسان شناسی کی روایت جو کم ہے وہ تو ہے ہی ساتھ ہی محسن کشی کی بھی مثالیں ہیں جو احسان کرے اسی کو نقصان پہنچائو اسی کے درپے آزار ہو جائو۔ بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء کو کئی جرنیلوں پرسبقت دے کر آرمی چیف بنایا۔ اسی جنرل ضیاء نے رات کی تاریکی میں اپنے محسن کو تختہ دار پر چڑھا دیا یہی کچھ معاملہ نواز شریف کے ساتھ ہوا جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کو کئی جرنیلوں کو نظر انداز کر کے آرمی چیف کے عہدہ جلیلہ پر فائز کیا۔ چنانچہ ان ہی جنرل مشرف نے اپنے محسن نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے عمر قید کی سزا کے شکنجے میں گرفتار کیا۔ یہ تو حکومت و سیاست کا معاملہ ہے۔ عام زندگی میں بھی اس کی مثالیں ڈھونڈنے سے بآسانی مل جائیں گی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول کس کو یاد نہ ہو گا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچنے کی فکر کرو۔ ہمارے پروفیسر شریف المجاہد جو قائد اعظم اکادمی کے بانی ڈائریکٹر تھے اپنے آفس میں اپنی میز کی پچھلی دیوار پہ نمایاں حروف میں یہ قول آویزاں کر رکھا تھا۔ یقینا کسی نے ان کے احسانات کے جواب میں انہیں نقصان پہنچایا ہو گا۔ ہمارے دوست فراست رضوی کہا کرتے تھے کہ اصل میں جس پر احسان کیا جائے وہ دوسرے کا احسان اٹھا کر ایک طرح کے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے ایک توہین کا غیر محسوس سا احساس اس کے اندر سرایت کر جاتا ہے جو اسے چھبتا رہتا ہے اس اذیت سے نجات نہ پانے کا کوئی اور طریقہ نہیں کہ محسن کو ہی نقصان پہنچائو ۔ شکر گزاری کی ضد ناشکر گزاری ہے اور خداوند تعالیٰ کو ناشکر گزاری سخت ناپسند ہے۔ ہم معمولی معمولی باتوں پہ دوسروں کی مدد اور تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہیں کسی کو ہماری ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو ’’سوری‘‘ اور معاف کیجیے‘‘ کہتے ہیں۔ مگر کیوں ؟ اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمام روحوں کو جمع کر کے کہا تھا ’’الست بربکم‘‘ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو روحوں نے ’’کیوں نہیں !‘‘کہہ کر اللہ تعالیٰ کے وجود کا اعتراف کیا تھا۔ تمام انسانوں کے اندر وہی اللہ تعالیٰ کی روح بسی ہوئی ہے جنہوں نے اپنے خالق سے عہد کیا تھا کہ ہم تجھ ہی سے ہیں اور تیری ہی مخلوق ہیں اور مخلوق کے طور پر دنیا میں جا کر ہم تیرے وجود کا اقرار کرتے رہیں گے تو اگر رحمان و رحیم ہے تو ہم بھی دوسری روحوں کے لئے خواہ وہ کسی بدن کسی جسم میں ہوں ان کے لئے محبت و شفقت کا پیکر رہیں گے غلطی ہوئی یا دوسرے کو ہم سے تکلیف پہنچی تو معذرت کریں گے اور دوسروں سے کوئی فائدہ پہنچا تو شکر گزاری کے احساس کا بھی اظہار کرتے رہیں گے۔احسان کا بدلہ احسان سے دیں گے۔ نفس جب روح پر غالب آ جائے تو بدن انسانی میں روح پس پشت جا پڑتی ہے اور نفس ہی سامنے آ جاتا ہے۔ یوں نفس اپنا کھیل کھیلنے لگتا ہے۔چنانچہ آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں‘ اسمیں نفس اور انا ہی کی حکمرانی ہے۔ اسی کا چلن ہے جب تک ہم نفس کی تطہیر و تزکیہ نہ کریں ہمارے وہ دکھ اور اذیتیں جو دوسروں سے ہمیں ملتی رہتی ہیںختم نہیں ہوں گی مگر اصل سوال تو یہی ہے کہ ہم کب نفس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ اگر کسی کو نفس کی حقیقت کو سمجھنا ہو تو وہ ڈاکٹر محمد امین کی کتاب ’’اسلام اور تزکیہ نفس‘‘پڑھ لے اپنے نفس کی حقیقت سمجھ میں آ جائے گی۔