حکومت عدلیہ تنازع کیونکر اور کیسے شروع ہوا ہے اس پر کیا آراء پیش کی جائیں کہ کس کا موقف درست ہے کس کا غلط ، ہمارے جیسے ادنیٰ سوچ کے حامل انسان کے لئے قطعی رائے دینا ممکن نہیں ہے بس اتنا ہی عرض کی جا سکتا ہے کہ "اے باد صبا! ایں ہمہ آوردہ تست(اے باد صبا! یہ ساری بربادی، فساد اور آفت تیری ہی لائی ہوئی ہے) کس کس قسم کی باد صبا بلکہ باد سموم نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے اس کے لئے آپ اپنی دانش افروز سے کام لے سکتے ہیں ۔ عدلیہ بمقابلہ انتظامیہ، عدلیہ بمقابلہ عدلیہ، پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی کشیدگی اور رسہ کشی طول پکڑ جانے کی وجہ سے ہر صاحب فہم اور محب وطن پاکستانی پریشان ہے ۔بعض سیاسی تجزیہ کاروں ے خیال میں اس محاذ آرائی سے اس لولی لنگڑی جمہوریت کی بساط بھی الٹنے کے امکانات ہیں اور طویل عرصے کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا آخری ترکش چل سکتا ہے کیونکہ اس تجربے کو ہمارے بزرجمہروں نے ابھی تک آزمایا نہیں ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کے با اختیار اور فیصلہ سازی کے مراکز اپنی اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشی بہتری کا کوئی روڈ میپ مرتب کرتے اور عوام کے راستے سے معاشی کانٹے چنتے مگر لگتا ہے کہ انہیں اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کہ بلوم برگ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح سری لنکا سے بھی بڑھ گئی ہے اور جنوبی ایشیا میں مہنگے ترین ملک کا تاج پاکستان کے سر پر سج گیا ہے وہ تو اپنے ذاتی، گروہی اور ادارتی مفادات کی خاطر اس ملک کو تہہ وبالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی آل اولاد غیر ممالک میں عیش و عشرت کی زندگیاں بسر کر رہی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان برہمنوں کی اکثریت بھی مغربی ممالک میں آباد ہو جاتی ہے اور پاکستان ان کے لئے انگریزوں کی طرح ایک نو آبادیاتی کالونی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے اور طاقتور شخصیات کے جنبش ابرو سے ہی آئین اور قانون کی تشریح و توضیح کی جاتی ہے۔ ایوب خان کا اپنا آہین تھا۔ ضیاء الحق کہا کرتا تھا کہ آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جب چاہے اس کو پھاڑ دوں۔ پرویز مشرف نے دو دفعہ آئین شکنی کی اور جسٹس منیر سے لیکر جسٹس ارشاد نے اس کو نظریہ ضرورت کے تحت سند قبولیت دی اور سیاست دانوں نے پارلیمنٹ میں ان کے غیر قانونی اقدامات کو انڈیمنٹی دی جسکی وجہ سے یہ ملک دائروں میں محو سفر ہے اور بار بار ایک ہی طرح کے ستم ظریفوں کے ہتھے چڑھ کر تباہی اور بربادی کا شکار رہتا ہے اسی لیے منیر نیازی کا کہنا ہے کہ : منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ آج تقسیم شدہ عدلیہ اور ادھوری پارلیمنٹ ٹکراؤ کے لیے تیار ہو چکی ہیں چیف جسٹس صاحب کے مطابق کسی بھی ماسٹر آف روسٹر ہوتے ہوئے کس مقدمے کے لئے بنچ بنانا اور ازخود نوٹس لینا ا ن کا آئینی استحقاق ہے جبکہ پی ڈی ایم ان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے پنجاب میں 14 مء کو انتخابات کروانے کے فیصلے کو کس حال میں میں ماننے پر رضا مند نہیں ہے چیف جسٹس صاحب کو پارلیمنٹ میں طلب کرنے کی باتیں ہورہی ہیں پی ڈی ایم کے خیال میں چیف جسٹس نے الیکشن کی تاریخ طے کر نے کے لئے فل کورٹ کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے زیادتی کی ہے جبکہ انہی ججز نے جب عمران خان کی اسمبلی توڑنے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو بحال کیا اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے حق میں فیصلہ دیا تو تب تمام پی ڈی ایم ان کی انصاف پسندی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہی تھی مگر آج جب ایک سال کی بدترین ناکامیوں کے بعد وہ فوری الیکشن میں عوام کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہے تو وہ سپریم کورٹ کے ساتھ محاذ آرائی کو طول دے کر عوام کی توجہ اپنی معاشی ناکامیوں سے ہٹا نا چاہتی ہے اور چاہتی کہ کس طریقے سے ان کے سیاسی گھوڑے کے تن مردہ میں جان پڑھ جائے اور الیکشن موجودہ چیف جسٹس کے دوران ملازمت نہ ہوں ان حالات میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے مفاد میں اداروں کی کشیدگی ختم کر انے کے لیے اپنا کردار ادا کر نا ہوگا وگرنہ پاکستان کے جسد خاکی کو اسقدر زیادہ امراض لا حق ہو چکے ہیں کہ مجھے کہنا پڑھے گا : تن ہمہ داغ داغ شد،پنبہ کجا کجا نہم ملک پہلے ہی معاشی تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے طالبان کی دہشت گردی کا سامنا ہے اور اگر ایسے میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بھی قتل غارت شروع ہو گئی تو اس ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہذا میری ارباب بست وکشاد سے درخواست ہے کہ اس سنگین مسئلے کو باہمی افہا م وتفہیم سے حل کر لیں وگرنہ دونوں فریقین کو اپنی ضد، انا اور ہٹ دھرمی کی قیمت بھی چکا نی ہو گی اور اس سے پہلے کہ آرم ٹوسٹ ہو وہ جو کہتے ہیں : ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابی بسیار ترجمہ جو کچھ دانا پہلے ہی کرلیتا ہے بے وقوف بھی کر تا ہے مگر بہت زیادہ تکلیف اٹھانے کے بعد۔