آج سے بارہ برس قبل پاکستان کے انسانی حقوق، حقوقِ نسواں کے نام نہاد علمبردار ٹولے اور سیکولر، لبرل سول سوسائٹی کی کوششیں رنگ لائیں اور 2008ء میں برسرِ اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی نے سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا۔ روکنے کا یہ عمل کمال درجے کا فریب تھا۔ یعنی ایک قاتل، ڈاکو، جنسی درندہ یا دہشت گرد سیشن کورٹ سے پھانسی کی سزا پاتا ہے، ہائی کورٹ اس کی سزا کو بحال رکھتی ہے، سپریم کورٹ میں بھی اس کی اپیل مسترد کر دی جاتی ہے، پورا ملک اطمینان کر لیتا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے بھی ایسے مجرم کو سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے، اب یہ ظالم کسی نہ کسی دن پھانسی کے تختے پر جھول جائے گا۔ لیکن عوام کو فریب دینے کے لیئے یہ طریقہ نکالا گیا کہ پھانسی کی سزا پانے والے مجرم سے ’’صدر پاکستان‘‘ کے نام ایک رحم کی اپیل کروائی جاتی اور پھر اس اپیل کو التواء میں ڈال دیا جاتا اور سیشن کورٹ سے لے کرسپریم کورٹ تک تمام ججوں کے فیصلوں کو کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا۔ یوں خاموش اور غیر قانونی طریقے کی وجہ سے 2009ء ،2010ء اور 2011ء میں ایک بھی سزا یافتہ مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔ معلوم نہیں وہ کونسا ’’واحد‘‘ بدنصیب تھا، جس کو پیپلز پارٹی کی مجرموں اور قاتلوں سے محبت رکھنے والی حکومت کے دور میں بھی 2012ء میں پھانسی دی گئی۔ اگلے سال 2013ء میں نوازشریف کی حکومت آگئی۔۔ پاکستان مسلم لیگ ’’نون‘‘ نئی نئی مشرف بہ ’’سیکولرزم و لبرلزم‘‘ ہوئی تھی اورانسانی حقوق و حقوقِ نسواں کی’’ سول سوسائٹی ‘‘ان کے دلوں میں سمائی تھی، اس لیئے نواز شریف حکومت نے بھی ان قاتلوں، جنسی درندوں اور دہشت گردوں سے ویسی ہی محبت کا برتاو کیا، جیسی محبت ان کے پیش رو آصف زرداری نے دکھائی تھی اور 2013ء کے سال بھی کسی کو تختۂ دار پر نہ چڑھایا گیا۔ 2014ء کا پورا سال بھی تقریباً اس ملک میں کسی مجرم کو پھانسی دیئے بغیر ہی گزرگیا۔ ان سات برسوں میں پھانسی کی سزا ایک مذاق بن کر رہ گئی۔ وہ شخص جس نے کوئی ایسا جرم کرنا ہوتا، اسے اس بات کا پختہ یقین ہوتا کہ اگر اسے سپریم کورٹ سے پھانسی ہو بھی گئی تو اللہ ہماری ’’سیاسی قیادت‘‘ کو زندہ سلامت رکھے، سزا کے باوجود مجھے کوئی شخص پھانسی نہیں چڑھائے گا۔ ان سات برسوں میں پاکستان کی جیلوں میں 8261 ایسے مجرم ’’خصوصی مہمان‘‘ کے طور پر جمع ہوگئے، جنہیں سپریم کورٹ تک نے پھانسی کی سزا سنائی تھی، مگر حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتی تھی۔ بے خوفی اور مجرموں کی دیدہ دلیری کا عالم 2014ء کے دسمبر تک اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ ان 8261پھانسی کے منتظر مجرموں میں سے پانچ سو کے قریب بم دھماکوں، جنسی درندگی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے مجرم بھی شامل تھے۔ سال ختم ہونے کے قریب تھا کہ 16 دسمبر2014ء کو پشاور میں ’’آرمی پبلک‘‘ سکول کا اندوہناک سانحہ پیش آگیا، جس میں دہشت گردوں نے 148 معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کردیا۔ پورا ملک سناٹے میں آگیا۔ ہر کوئی خود کو اسقدر غیر محفوظ تصور کرنے لگا۔ اس واقعہ کے دس دن بعد 17 دسمبر 2014ء کو وزارت داخلہ نے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہ کرنے والی پابندی اٹھالی۔ نواز دور میں یہ پابندی پیپلز پارٹی کی طرح ایک منافقانہ اور پرفریب طرز عمل نہیں تھا، بلکہ نواز شریف نے اپنے برسراقتدار آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے، وزارت داخلہ کے ایک حکم نامے کے ذریعے باقاعدہ پھانسی نہ دینے کو سرکاری حیثیت دے دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب 17دسمبر کو پابندی اٹھائی گئی تو جو نوٹیفکیشن جاری کیاگیااس کا عنوان تھا’’پھانسی کی سزا کی معطلی‘‘ (Moratorium On Death Penalty) اور نوٹیفیکیشن کا آغاز ایسے تھا۔ ’’In Super-Session Of Ministry Of Interior Of Even Number Dated 18-08-2013‘‘ ’’وزارت داخلہ کے 18اگست 2013ء کو جاری کئے گئے حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے‘‘۔ کس قدر منافقت اور دھوکہ دہی ہے کہ آئین پاکستان میں پھانسی کی سزا موجود ہے، پاکستان کے مروجہ قوانین میں بھی یہ سزا موجود ہے، عدالتیں روز مجرموں کو پھانسی کی سزا سناتی ہیں، لیکن ایک وزیراعظم آئین اور سپریم کورٹ دونوں کے خلاف یہ فیصلہ کرتا ہے کہ عدالتوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کی قربانی نے ہمارے حکمرانوں کے دلوںکو تھوڑی دیر کے لئیے جھنجوڑا تو دسمبر 2014ء کے آخری ہفتے میں سات مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔ اس سانحے کے بعد بھی پورے ملک کے نظام عدل کو درست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ ایک متوازی عدالتی نظام قائم کیا گیا جو فوجی عدالتوں پر مشتمل تھا۔ ان عدالتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ ملک کے طول و عرض میں کیسے اور کس طرح قتل ہورہے ہیں، کتنے بچے اغوا کرکے جنسی تشدد کے بعد مار ے جارہے ہیں۔ انہیں تو صرف ان مقدمات سے مطلب تھا ، جن کا تعلق فوج یا سیکورٹی اداروں پر حملوں سے تھا۔ انہی مقدموں کے لئیے 17 دسمبر کو نوازشریف حکومت نے صرف دہشت گردی کے مقدمات پر سزائے موت پر عملدرآمد روکا باقی مجرموں کو ویسے ہی اپنا ’’مہمان‘‘ بنائے رکھا تھا۔ 3مارچ 2015ء کو نواز شریف نے عوامی مطالبے سے مجبور ہو کر تمام مقدمات میں پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کی اجازت دے دی، کیونکہ لوگ سوال کرنے لگے تھے کہ ان کے رشتے داروں کے قاتلوں کو کیوں سزا نہیں دی جارہی۔ پھانسی کی اجازت کے اس حکم نامے میں بھی عوام کے ساتھ ایک فراڈ کیا گیا اور یہ چند لائنیں ’’احتیاطا‘‘ لکھی گئیں کہ ’’جب تک آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت رحم کی اپیل مسترد نہ ہو جائے، سزائے موت نہ دی جائے‘‘، یعنی زرداری والا مکارانہ طریقِ کار زندہ کردیا۔ یعنی ممتاز قادری کوپھانسی دینا ہو تو اپیل مسترد کرائو اور باقیوں کے مزے ہی مزے۔ جیلوں میں قید لاتعداد دہشت گرد فوجی عدالتوں سے پھانسی کی سزا پانے لگے، جس کے نتیجے میں 2015ء میں (325)، 2016ء میں) (88اور 2017ء میں (48)مجرموں کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ زرداری اور نواز دور میں پھانسی کے سزا یافتہ مجرموں کی سزا پر عملدرآمد نہ ہونے کا براہ راست اثر عدالتی نظام پر پڑا۔ سپریم کورٹ نے 2010ء سے 2018ء تک 310 ایسے مجرموں کے مقدمات پر فیصلہ کیا، جنہیں ماتحت عدالتوں نے موت کی سزا سنائی تھی۔ ان میں سے سپریم کورٹ نے 78فیصد یعنی 241مجرموں کی سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کر دیا یا عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ ان میں سے 39فیصد یعنی 110تو ایسے تھے، جو سپریم کورٹ سے باعزت طور پر بری کر دئیے گئے۔ سپریم کورٹ کے ان دھڑادھڑ فیصلوں کے بعد دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شورمچانا شروع کر دیا کہ دیکھو پاکستان میں ہر پانچ سزا یافتہ پھانسی کے مجرموں میں سے دراصل دو بے گناہ ہوتے ہیں، جنہیں ماتحت عدالتیں زبردستی پھانسی کی سزا دیتی ہیں۔ فوجی عدالتوں کے فیصلے ختم ہوئے اور ساتھ ہی ان سالوں میں سپریم کورٹ کی جانب سے نرمی کا یہ نتیجہ نکلا کہ پھانسی کی سزا پانے والوںمیں دن بدن کمی آنے لگی۔ عمران خان کی ریاست مدینہ میں بھی پھانسی کی سزا پانے والے مجرموں کی مہمان نوازی اور ناز برداری ویسی ہی جاری ہے۔ خان صاحب کو ورثے میں 4,668 ایسے مجرم ملے تھے جن کی اپیلیں صدر محترم کے پاس زیر التوا تھیں اور ان دو برسوں میں ان میں اندازاً ایک ہزار کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس سب کے باوجود عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں، پاکستان کی سول سوسائٹی اور انسانی و نسوانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور ان کا ہمنوا عالمی اور پاکستانی میڈیا آج بھی پاکستان کو ایک سفاک اور بے رحم ملک کہتا ہے۔ ایسا ملک جہاں قاتلوں، جنسی درندوں اور دہشت گردوں کو پھانسی تک دے دی جاتی ہے۔ لیکن یہ سب منافق لوگ جب موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی جیسے واقعات ہوتے ہیں، تو مگر مچھ کے آنسو بہانے ٹیلی ویژن پر آجاتے ہیں۔ جس ملک میں پھانسی کی سزا کا انتظار کرنے والے مجرموں کو ’’مہمان خصوصی‘‘ بنا کر رکھا جائے گا اور انہیں یقین ہو جائے کہ کوئی انہیں ’’موت کے گھاٹ‘‘ نہیں لے جاسکتا تو ایسے ملک میں کبھی جرم ختم نہیں ہو سکتا ہے۔