پچیس جولائی دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی حکومت اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرکے اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میںجشن برپا کرچکی ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی کامیابیو ں کی داستان سنائی،اپنی بائیس برس پر جدوجہدکی یادیں تازہ کیں۔ملک لوٹنیوالوں کو لتاڑااور احتساب کے قصے سنائے۔اپنے اقتدار کے دور میں حاصل کی گئی کامیابیوںپر اطمینان کااظہار کیا۔پنجاب کے وزیراعلیٰ کے کام کی تعریف کی، صوبائی وزیرِ تعلیم کو یکساں نصاب مُرتب کرنے کی ’’داد‘‘ دی۔اور اپنے ’’ویژن‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ موبائل فونز کی وجہ سے جنسی جرائم اور بچوں سے زیادتی جیسے واقعات رُونما ہورہے ہیںاور بہ حیثیتِ قوم ہمارے لیے مینارِ پاکستان واقعہ سے زیادہ شرم ناک چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی ،لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کی کردار سازی کی ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان ،حکومتی وزیر و مشیر اورپی ٹی آئی کے حامی ،سب کے نزدیک ملک ترقی کررہا ہے اور پی ٹی آئی حکومت گذشتہ ادوار میں قائم ہونے والی حکومتوں سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے ملک چلا رہی ہے۔دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں اور اُن کے حامی موجودہ حکومت کو عوام دُشمن ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت کے اِن تین برس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو حکومت ہر محاذ پر ناکام رہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کے فیصلے مفید ثمرات سے محروم رہے،نیز وزیرِ اعظم نے ایسے کاموں پر زیادہ توجہ دی جو ضمنی نوعیت کے تھے۔ضمنی نوعیت کے کاموں اور پراجیکٹس پر توجہ مرکوز کیے رکھنے سے یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ وزیرِ اعظم اس سے آگے سوچ نہیں سکتے۔اس دَور میں مختلف ایشوز جب جنم لیتے رہے اور وزیرِ اعظم اُن پر جو ردِعمل دیتے رہے ،یہ سب حیران کن تھا۔کورونا وائرس کی پہلی لہر میں وزیرِ اعظم کے فیصلے صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے جانے فیصلوں سے متصادم رہے اور وزیرِ اعظم سخت بیانات بھی دیتے رہے۔ سماجی سطح پر رُونما ہونے والے ہر واقعہ پر وزیراعظم کا ردِعمل محض ’’دانشورانہ تجزیہ‘‘کے طورپرسامنے آتا رہا۔ایک ماہر سماجی تجزیہ کارکے طورپر وزیرِ اعظم واقعہ کے رُونما ہونے کی وجوہات بیان کرنے تک محدود رہے۔اسی طرح سماجی فلاح سے متعلق اِن کا تصورلنگر خانوں سے اُوپر نہ اُٹھ پایا۔ہر سماجی واقعہ پروزیرِ اعظم کا تجزیہ تنازع کا باعث بنتارہا۔اس ضمن میں خواتین کے پردہ سے متعلق اِ ن کے بیانات کو دیکھا جاسکتا ہے۔وزیرِ اعظم ہر مسئلہ پر تجزیہ تو پیش کرتے رہے مگرمسئلہ کے حل کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دیے،جن مسائل کی کی طرف بڑھنے کی کوشش بھی کی تو وہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو کر رہ گیا۔بعض سماجی سطح پر جنم لینے والے اَلمیوں پر ایسے سخت بیانات اور ایسا ردِعمل دیا کہ خود کو فریق بنابیٹھے۔اس کی مثال ہزارہ برادری پر ٹوٹنے والی قیامت کی دی جاسکتی ہے۔ وزیرِ اعظم نے اِن تین سال میں منصوبے ضرور بنائے ہیں۔ لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ منصوبوں پر عمل بھی ہوچکا ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ ایک ناول کا بااثر کردار کا خیال تھا کہ وہ جو کچھ سوچتا اور سمجھتا ہے ، اصل میں ہوجاتا ہے۔اُس نے ہسپتال تعمیر کیے،سڑکیں بنائیں،پُل بنائے ،ٹرانسپورٹ کا نظام درست کیا، تعلیمی ادارے قائم کیے ،فیکٹریاں کھڑی کیں،زراعت کے شعبے کو ترقی دی ،نوجوانوں کو نوکریاں دیں،بے روزگاری کا خاتمہ کیا،غربت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکاوغیرہ وغیرہ۔ اُس کے خیالات عملی تعبیر سے تہی رہے ،چونکہ وہ کردار سمجھتا تھاکہ سب ٹھیک ہوچکا ہے تو کوئی حالات کے ابتر ہونے کا ڈھول بھی پیٹتارہے اُس کے کان میں اس کی آواز نہیں پڑتی تھی۔لہٰذا اس کے نزدیک سب ٹھیک تھا۔اسی طرح وزیرِ اعظم کے پسندیدہ وزیرِ اعلیٰ کی مسلسل محنت نجیب محفوظ کے اُس کردار کی سی ہے جو سارادِن سرجھکائے فائل پُر کرتا رہا ،جب فائل آگے بھیجی گئی تو وہ خالی تھی کہ جس قلم سے وہ لکھتا رہا،اُس قلم میں روشنائی ہی نہ تھی۔ جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے تو اُن کو سمجھ نہیں آرہی کہ اُنھیں کیا کرنا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے بعض الفاظ رَٹ لیے ہیں ،جن کو وہ طوطے کی طرح ہر جگہ اور ہر موقع پر دُہراتے رہتے ہیں۔میاں شہباز شریف کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے نہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن کے پاس۔میاں نوازشریف کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے تو وہ لندن بیٹھ کر کہنے کا اخلاقی جواز ہی کھو چکے ہیں۔رہی مریم نواز تو یہ کچھ کہہ کر ٹھہرے پانی میں ارتعاش پیدا کردیتی ہے پھر اُسی پانی سے اُٹھنے والی لہروں کو تھمتے دیکھتی رہتی ہے ،جب لہریں تھم جاتی ہیں تو پھر پتھر پھینک کر نظارہ کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ٹھہرے پانی کا تالاب یہ سمجھ چکا ہے کہ اُس کے اندر پتھر پھینکنے والاتماشے میں محوہوچکا ہے ۔کاش! مریم کو تالاب میں پتھر پھینکنے اور اُس سے پانی میں اُٹھنے والے ارتعاش کا احساس ہوتا۔ حکومت تین سال کاجشن مناچکی اگلے دوسال مکمل کرنے پر ’’عظیم کامیابی‘‘کا جشن منایا جائے گا اور اپوزیشن اپنے رٹے جملوںکو دُہرائے گی اور سمجھے گی کہ عوام کی ترجمانی کا خوب حق ادا کیا۔