گیارہ برس کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔اس وقت سندھ میں پی پی حکومت اس مریض کے مانند ہے؛ جس کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہو۔ سائیں مراد علی شاہ کی سرکار ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ کمزورتر ہوتی جا رہی ہے۔ احتساب نے پیپلز پارٹی کے اقتدار کو عملی طور ختم کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اصل اور بااختیار قیادت سلاخوں کے پیچھے ہے مگر سندھ میں برائے نام بھی احتجاج نہیں ہو رہا۔ اس کا سبب بھی احتساب ہے۔ شیخ رشید نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ مسلم لیگ ن اکیلی کھاتی ہے جب کہ پیپلز پارٹی بانٹ کے کھاتی ہے۔ کرپشن کی دیگ سے اصل مال تو قیادت اور اس کے قریبی حلقے کو حاصل ہوا مگر وہاں موجود کارکنان بھی بھوکے پیٹ نہ رہے۔ ان کو بھی کرپشن کی دیگ سے کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہا۔ اب جب انہیں احتجاج کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ ڈر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کرپشن کی گنگا میں ڈبکی نہیں لگائی مگر کسی نہ کسی طرح ہمارے ہاتھ بھی بھیگے ہوئے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قیادت کے پاس بہت دولت ہے۔ ان کی پوری دنیا میں دوستی ہے۔ ان کے پاس بڑے وکیل ہیں۔ وہ قانون سے بچ سکتے ہیں۔ ہم کو قانون سے کون بچائے گا؟اس خوف سے وہ باہر نہیں نکلتے کہ اگر دھر لیے گئے تو ان کو بچانے کون آئے گا؟ آصف زرداری کے بہت سارے سیاسی گناہوں میں ایک بڑا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ان کارکنوں کو کرپشن میں ملوث کرکے بزدل بنادیا جوکارکن کبھی اپنے دل اور جگر کی وجہ سے جیالے کے نام سے پکارے جاتے تھے۔میڈیا میں تو اب بھی پیپلز پارٹی کے کارکن کو جیالا ہی کہا جاتا ہے مگر وہ جیالا برائے نام رہ گیاہے۔ وہ جیالا ایسا نہیں ہے جیسا ستر اور اسی اور کسی طور سے نوے کی دہائی میں تھا۔ وہ جیالا احتجاج کرنا بھی جانتا تھا اور جیل میں جانا بھی، اس کے لیے فخر کی بات تھی۔ آج کاجیالا بھٹو کا سیاسی پیروکار نہیں ہے۔ آج کا جیالا زرداری کا خادم ہے۔ نوکر خدمت تو کرتے ہیں مگر نوکر مالک کے لیے جان نہیں دیتے۔ اس بات کا احساس آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی قید قیادت اگر اب ہوا بھی تو کیا؟ اس احساس نے آتے آتے بڑی دیر کردی۔ وزیر اعظم عمران خان نے پیپلز پارٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت اہم بات کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر این آر او کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کرپشن میں ملوث نہ ہوتی اس کے پاس دولت بھی ہوتی؛ سیاسی طاقت بھی ہوتی اور عزت بھی ہوتی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سب کچھ لٹا کربھی ہوش میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ اب تک اس راستے کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں جو راستہ کرپشن کا ہے۔ کرپشن کا دیمک سیاسی جماعتوں کی طاقت کو چاٹ لیتا ہے۔ وہ لکڑی کی طرح باہر سے تو ویسی ہی نظر آتی ہیں مگر جب بھی ان پر ذرا سا بوجھ پڑتا ہے وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ اس بات کا احساس آصف زرداری کو بھی ہے۔ اس لیے وہ پارٹی کارکنان پر زیادہ دباؤ ڈالنے کے حق میں نہیں۔ والد کی گرفتاری کے بعد بلاول نے بڑی کوشش کی وہ پارٹی کو احتجاج کے راستے پر لے آئے۔ اس نے سندھ میں جو تنظیمی دورے کیے ان دوروں کے دوارں انہوں نے کارکنان کا لہو گرمانے کی کوشش کی مگر وہ لہو کرپشن کی وجہ سے اس قدر سرد ہو چکا تھا کہ اس میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔ بلاول کی کوشش کو ناکام دیکھ کر آصف زرداری نے اسے جیل سے پیغام بھیجا تھا کہ اپنے آپ کو مت تھکاؤ اور کارکنوں کو مت آزماؤ۔ اس کے بعد بلاول خاموش ہوگیا۔ مگر پیپلز پارٹی کے چند لوگوں کا خیال تھا کہ اگر آصفہ آگے آئی تو سندھ کے لوگوں کو اس میں بینظیر بھٹو کی جھلک نظر آئے گی مگر آصفہ کے آنے سے بھی کچھ نہیں ہوا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو یہ تلخ سچائی سمجھ میں آگئی کہ اس کے پاس صبر کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی سمیت پوری سیاسی اور صحافتی برادری کو معلوم ہے کہ اب قانون کا ہاتھ مراد علی شاہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مراد علی شاہ کے گرد نیب کا گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بہت کوشش کی کہ وزیر اعلی کو بچائے جو قیادت کو بھی پسند ہے اور وہ امور حکومت چلانا بھی جانتا ہے مگر پیپلز پارٹی کی ہر تدبیر الٹی ہوتی نظر آتی ہے۔مراد علی شاہ کو معلوم ہے کہ اس کے پاس گرفتاری سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ اب وہ نیب سے تھوڑے وقت کی رعایت لیکر اس ریکارڈ کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو ثبوت کی طرح عدلیہ اور عوام کے سامنے پیش ہونا ہے۔ مراد علی شاہ اس بار صرف نیب کے حوالے سے پریشاں نہیں ہیں۔ وہ اس بار سندھ کی افسرشاہی سے بھی بہت ناراض ہے۔ مراد علی شاہ کے گرد قانون کی زنجیر کو تنگ ہوتے دیکھ کر سول بیوروکریسی نے اپنا تعاون ختم کردیا ہے۔ بیوروکریسی کے تعاون کے بغیر تو ریکارڈ کو تبدیل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس طرح سندھ کے وزیر اعلی کو حالات نے بند گلی میں کھڑا کردیا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے وہ جتنا وقت کھینچ سکتا ہے کھینچے مگرموجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ مراد علی شاہ کے پاس موجود رسی زیادہ لمبی نہیں ہے۔ وہ رسی کبھی اور کسی بھی وقت مزید کھنچنے سے انکار کرسکتی ہے۔ اس وجہ سے مراد علی شاہ بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی میں فاروڈ بلاک بن چکا ہے۔ اس کو صرف پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اس نے اصل پاور حکومت اور دولت کو سمجھا۔ حالانکہ سیاست کی حقیقی قوت عوام ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے جلسوں میں یہ نعرے بھی لگاتی رہی ہے اور یہ بینر بھی لہراتی رہی ہے کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہے‘‘ مگر پیپلز پارٹی کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس نے اپنی سیاست پر بھی عمل نہیں کیا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ عمل مکمل ہوتا۔ اگر پیپلز پارٹی اپنے منشور پر پچاس نہیں بلکہ پچیس فیصد بھی عمل کرتی تو آج اس قدر بے بس نہ ہوتی۔ عام طور پر پورے پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے سیاسی حلقوں میں اس بات پر مکمل طور پر اتفاق رائے ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو رہی ہے۔ اس اتفاق کے بعد اگر کوئی شخص یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی حکومت گنوانے کے بعد سیاسی کردار ادا کر سکے گی؟ یہ سوال اہم ہے مگر اس حوالے سے اختلافات کے آثار پیداہوتے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ اختلاف ایسا بھی نہیں کہ وہ کسی مباحثے کی صورت اختیار کرے۔ اکثر سیاسی مبصر اس بات پر بحث کو سمیٹ لیتے ہیں کہ یہ اگلا راؤنڈ ہے۔ اس کے بارے میں ابھی سے کوئی حتمی بات کرنا درست نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ سندھ کارڈ سے کھل کر کھیلے مگر سندھ میں پیپلز پارٹی یہ کارڈ استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی سندھ کارڈ اس وقت استعمال کرتی ہے جب وہ اقتدار میں ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کی قیادت میں حزب اختلاف میں رہتے ہوئے سندھ کارڈ استعمال نہیں کیا۔ اقتدار میں رہتے ہوئے سندھ کارڈ استعمال کرنا آسان ہے مگر حزب اختلاف میں سندھ کارڈ استعمال کرنا بہت مشکل ہے۔ سندھ کارڈ استعمال کرنے کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس بات کا احساس ہوگیا جب اس نے حیدرآباد میں سندھو دیش کی بات کی۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی نے اس موضوع پر اس قدر خاموشی اختیار کی کہ وہ خاموشی بھی شور کرنے لگی۔اس وقت یہ حقیقت کس قدر افسوسناک ہے کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں دولت تو ہے مگر سیاسی طاقت نہیں۔ دولت کی طاقت سیاست میں کس قدر اہم ہے؟ اس سوال کا جواب آصف زرداری کو قید میں مل گیا ہوگا۔ آصف زرداری نے اقتدار کو دولت کمانے کا ذریعہ سمجھ کر وہ غلطی کی جس کو سندھ کی سیاسی تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔