وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بجٹ میں ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اصلاحات کے عمل کو تیز کر تے ہوئے عوام پر پڑنے والے غیر ضروری بوجھ کو کم سے کم کر کے ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد عوام نے سکون کا سانس لیا تھا اور سبھی عوامی حلقوں میں یہ بات روز سے زیر بحث رہی تھی کہ اب لوٹ مار‘ کرپشن اور خود ساختہ مہنگائی کا خاتمہ ہو گا۔ اگر کسی طبقے نے ایسے مکروہ عزائم ظاہر کئے تو پھر اس کے خلاف فی الفور قانون حرکت میں آئے گا لیکن دو برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود کرپٹ مافیا کے گرد شکنجہ کسا گیا نہ ہی خود ساختہ مہنگائی کرنیوالوں کا محاسبہ کیا گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آٹا مہنگا ہونے سے نانبائیوں نے روٹی اور نان کی قیمتوں میں خود بخود اضافہ کر لیا ہے جبکہ انتظامیہ نے بھی اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وفاق نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 40سے 56فیصد کمی کی تھی جس پر عوام نے سکھ کا سانس لیا لیکن اس کے بعد پٹرول نایاب ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور اور کراچی میں عوام پٹرول کے حصول کے لئے گھنٹوں لمبی لائنوں میں انتظار کرتے ہیں، جس کے بعد انہیں سو روپے کا پٹرول ملتا ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے وعدے کے مطابق کرپٹ مافیا پر قابو نہیں پا سکی۔ یہی ہماری انتظامیہ کی نااہلی اور نالائقی ہے۔ حکومت جب تک ایڈمنسٹریشن کو بہتر نہیں کرے گی تب تک عوام کی دہلیز تک حکومتی اقدامات کے ثمرات نہیں پہنچ سکتے۔ کورونا کے باعث ملک میں لاک ڈائون کیا گیا جس سے 30لاکھ افراد بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے، حکومت اگر ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہے گی تو پھر بے روزگاری کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہو گا۔ کورونا سے قبل جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 3.24فیصد تھا جبکہ مالی سال 2019-20ء میں 0.4فیصد کی منفی شرح رہی۔ وزارت خزانہ کی جانب سے سینٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال اپریل سے جون تک ایف بی آر کے ریونیو میں 700سے 900ارب روپے تک کی کمی ہو گی۔ اسی طرح ایف بی آر کا ٹیکس ریونیو 3905ارب روپے تک گر سکتا ہے، جس کے بعد مالی خسارہ 7.5فیصد سے بڑھ کر 9.4فیصد ہو جائے گا۔ بحران کے باعث غربت کی شرح 24.32فیصد سے بڑھ کر 33.5فیصد ہو جائے گی جبکہ برآمدات بھی کم ہو کر 21.22ارب ڈالرز رہیں گی۔ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں معاشی حالات مزید خراب ہونگے۔ اس کے باوجود اگر حکومت کرپٹ مافیاز کی لوٹ مار پر خاموش بیٹھی رہے تو پھر اس کی رٹ پر بھی سوالات اٹھیں گے کہ آخر کرپٹ مافیاز کے ساتھ نرمی کون کر رہا ہے؟ وزیر اعظم عمران خان ایک جانب کمیشن پر کمیشن بنوا کر ماضی کی لوٹ مار عوام کے سامنے لا رہے ہیں، دوسری جانب لوٹ مار کرنے والوں پرچپ سادھ رکھی ہے ،یہ دہری پالیسی ہے۔ عوام نے ماضی کے کرپٹ حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے عمران خان کے وعدوں اور دعوئوں کی بنیاد پر انہیں موقع دیا تھا لیکن نوبت بایں جا رسید کہ اب عوام بھی اپنے فیصلوں پر تذبذب کا شکار ہیں، اس لئے حکومت عوام کو مایوس نہ کرے اور کرپٹ مافیا کے گرد شکنجہ کس کر نااہل اور نالائق انتظامیہ کو متحرک کرے تاکہ عوام کوتبدیلی کا جوخواب دکھایا گیا تھا، اسے تعبیر مل سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے جو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی یا پھر پنجاب حکومت نے گندم کی قیمت مقرر کر کے خود خریدنے کا فیصلہ کیا اس کا عام آدمی اور کسان کو کتنا فائدہ ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں اگر حکومت منصوبہ بندی سے کام کرتی فوڈ انسپکٹروں اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک کیا جاتا تو لازمی طور پر اس کے اثرات عوام تک پہنچتے چونکہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہوتی ہے، اگر وہ ہی کرپٹ عناصر کی سہولت کار بن جائے تو پھر حکومتی مشینری کو ناکامی سے کوئی نہیں روک سکتا ،اس وقت بھی صورت حال ایسی ہی نظر آ رہی ہے کہ ہماری انتظامیہ حکومتی احکامات کو نظر انداز کرکے اسے ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کو اپنے وزراء کو بیدار کر کے حکومتی مشینری کو متحرک کرنا ہو گا۔ وزراء اعلیٰ کو بھی اپنے اپنے صوبوں میں سرکاری مشینری کو حرکت دینا ہو گی کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جس قدر کم ہو چکی ہیں اشیا ء ضروریہ کی قیمتوں میں اس تناسب سے کمی نہیں ہوئی۔ ارکان پارلیمنٹ اپنی ذات کے لئے تو فی الفور بل لے کر آ جاتے ہیں ،اب بھی ایوان بالا کے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کے بل سامنے آ چکے ہیں جبکہ ارکان پارلیمان کو ملنے والے سالانہ 25ریٹرن ہوائی ٹکٹوں کے بدلے سفری وائوچر جاری کرنے کا معاملہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار میں صرف چہرے بدلے ہیں، بدستور ماضی کی پالیسیاں ابھی چل رہی ہیں۔ دراصل جب تک پارلیمنٹ میں پرانے چہرے موجود رہیں گے تب تک عوام کو ریلیف فراہم کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔ وزیر اعظم عمران خان عوام سے جو وعدے کر کے اقتدار میں آئے تھے وہ وعدے پورے کر کے عوامی اعتماد کو بحال کریں۔ اعتماد کی بحالی اشیا ء ضروریہ کی دستیابی اور اس کے نرخوں میں کمی سے ہی ہو گی، اس لئے عمران خان اپنی ساری توانائیاں عوام کو ریلیف فراہم کرنے پر صرف کرتے ہوئے حکومتی رٹ کو بحال کریں۔ اس سے خوشحالی آئے گی اور عام آدمی حکومتی اقدامات سے مطمئن ہو سکے گا۔