ہماری سیاسی جماعتوں کی اخلاقی قدریں ہمہ وقت تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔جب ایک جماعت حزب اختلاف کا حصہ ہوتی ہے،تو ترقی یافتہ ممالک کی اخلاقی قدریں انہیں ازبر ہوتی ہیں اور وہ حکمران جماعت سے اخلاقی قدروں کا وہی معیار طلب کرتی ہیں۔ جیسے ہی ایک سیاسی جماعت اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتی ہے،تو وہ اپنے پرانے بیانیہ کو یکسر فراموش کر دیتی ہے اور زمینی حقائق کے مطابق سیاسی اخلاقیات کی کم ترین سطح سے بھی نیچے نظر آتی ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن کے کیسز میں مطلوب جناب شہباز شریف فرما رہے ہیں کہ اصل چیئرمین نیب تو عمران خان ہیں۔ وہ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ حکومت نے ڈیزل پر بجلی بنا کر اپنے اے ٹی ایمز کو ریلیف دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران حکومت نے گردشی قرضہ 1200سے 2800ارب تک پہنچا دیا ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ان کی حکومت نے کس طرح راتوں رات گردشی قرضہ بغیر کسی رسمی کارروائی کے اپنے قریبی دوستوں کو ادا کر دیا تھا۔ پوری قوم کے سامنے میڈیا پر جھوٹ بولنے والی مریم نواز بھی آج حق اور سچ کی سب سے بڑی علمبردار ہیں۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہوائی اڈوں پر امریکہ سے ڈیل قوم کے سامنے لائی جائے۔ نہ تو انہیں یہ یاد ہے کہ وہ یورپ تو کیا پاکستان میں بھی کسی جائیداد کی مالک نہیں ہیں اور نہ انہیں کیلبری فاونٹ کا قصہ یاد ہے۔ ان کی پارٹی کا کوئی بڑا یا چھوٹا لیڈر انہیں یہ قصے یاد کروانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ سب چھوٹے بڑے لیڈروں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں،ان کے ترجمان خواتین و حضرات کا فرض منصبی ہے کہ وہ ان کی ہر غلطی کا دفاع کریں۔چاہے اس کے لئے جان کی بازی لگانا پڑے۔ محترمہ مریم نوازاور ان کی ٹیم جس تواتر کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کو نالائقی کا طعنہ دیتی ہیں‘مریم نواز کا مکمل تعلیمی ریکارڈ واقفان حال کی نظروں میں گھوم جاتا ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنے ایک انٹرویو میں ان کی قابلیت پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔خدا کے فضل سے انہوں نے زندگی میں کبھی بھی میرٹ پر کسی کالج میں داخلہ نہیں لیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ہمیشہ ان کی بے جا ضد کے سامنے ہتھیار ڈالے اور خصوصی کوٹے پر انہیں داخلہ دلوایا۔ میڈیکل کالج میں ان کا داخلہ آرمی میڈیکل کالج کے راستے ہوا اور انہوں نے میڈیکل کالج کی تعلیم بھی ادھوری چھوڑی۔ آج جاوید لطیف ان کی آنکھ کا تارا ہے کیونکہ اس نے ان کی ذات کو پاکستان کی سالمیت پر ترجیح دی۔ نجانے کب ایسے رہنمائوں سے پاکستان کو رہائی نصیب ہو گی۔ دوسری طرف بلاول بھٹو بیانات دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے میں برسر اقتدار ہے۔ کراچی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر‘مہنگائی‘ ٹوٹی سڑکیں پبلک ٹرانسپورٹ اور بے مہار کرپشن ان کی براہ راست ذمہ داری ہے۔ تھر کے ریگستان میں بھوک سے مرنے والے بچے اور کتوں کے کاٹنے سے مرنے والے مردوزن ان کی ذمہ داری ہیں۔ وہ بغیر کسی ثبوت کے مرکزی حکومت کی کرپشن کی کہانیاں بیان کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں لکھ کر دے دیا جائے باآواز بلند پڑھ دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس میدان میں اپنے والد محترم کی شہرت سے وہ ناآشنا نہیں ہیں۔ ایم آر ڈی کے ایک اجلاس میں جب مولانا فضل الرحمن نے غلطی سے ایک ایسا سکرپٹ پڑھنا شروع کر دیا، جو آصف علی زرداری کی کرپشن کو اجاگر کرتا تھا تو جس طرح وہ چونکے تھے اور ان کا سکرپٹ تبدیل کروایا تھا۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ اندر کی سب کہانیاں جانتے ہیں۔ اب آتے ہیں پی ٹی آئی کی برسر اقتدار حکومت کی جانب، شروع سے ہی ان کا وطیرہ رہا ہے کہ اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار انہوں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ٹھہرایا ہے۔ شروع شروع میں تو یہ چورن بک جاتا تھا لیکن آج تین سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے بعد جب وہ اپنی کارکردگی کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈالتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ کمزور معیشت کی حد تک بھی یہ بیانیہ کسی حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن روز مرہ کے مسائل کے لئے بھی سابقہ حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ایک لطیفہ ہی ہو سکتا ہے۔ پورا ملک بری طرح لوڈشیڈنگ کی زد میں ہے۔ ہم گزشتہ تین سال سے یہ سن رہے ہیں کہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بجلی ساز کمپنیوں کو ان کی کیپسٹی کے مطابق ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ یعنی ہم کم بجلی بھی استعمال کریں تو ایک معاہدے کے تحت کمپنی کو اس کی صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنی پڑے گی۔ اب جب گرمی نے زور پکڑا ہے تو ان کمپنیوں کی صلاحیت کار بھی سامنے آ رہی ہے۔ ان کی بیان کردہ صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں ہو رہی۔ کیا ان کمپنیوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے ہمیں گزشتہ حکومتوں سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ حکومت وقت نے تو اس کی ذمہ داری بھی گزشتہ حکومتوں پر ڈال دی ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ صرف بیان بازی سے اپنی نااہلی کو ماضی کی حکومتوں پر نہیں تھوپا جا سکتا۔ اگر حکمرانی آپ کی ہے تو ذمہ داری کا بوجھ بھی آپ کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز قصہ ریل گاڑی کے حادثے کا ہے۔ ریل گاڑی کے حادثے کا ملبہ بھی سابقہ حکومت پر ڈال دیا گیا ہے۔ فواد چوہدری جیسے منجھے ہوئے وزیر کا حادثے کی ذمہ داری ن لیگ پر ڈالنا ناقابل فہم ہے۔ ریلوے کے وزیر اعظم سواتی صاحب نے بھی کمال کا بیان داغا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اگر ان کے استعفے سے ستر سے زائد مرنے والے دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں تو وہ استعفے کے لئے تیار ہیں۔کیا زبردست منطق ہے اسی منطق کی رو سے کوئی بھی قاتل یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اگر اس کی پھانسی سے مقتول کو زندگی واپس مل سکتی ہے تو اسے پھانسی دے دی جائے۔ عمران خان کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ اگر ریلوے کا حادثہ ہو تو وزیر ریلوے کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ وزیر موصوف ایک بار پہلے بھی استعفے کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس وقت چیف جسٹس کا ڈنڈا حکومت کے سر پر تھا۔ پاکستان میں ڈنڈے کے بغیر کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بجٹ کی آمد آمد ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بجٹ کی ذمہ داری بھی حکومت قبول کرتی ہے یا اس کا ملبہ بھی سابقہ حکمرانوں پر ڈالا جاتا ہے۔ فی الحال یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے کہ حکومت ہماری ہو گی لیکن ذمہ داری تمہاری ہو گی۔