عوام میں مہنگائی کے حوالے سے بہت زیادہ پریشانی پائی جاتی ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق اس سال مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد تک رہے گی جب کہ بے روزگاری میں بھی 1.5 فیصد اضافہ متوقع ہے۔پاکستان کی معاشی اور کاروباری صحت کس جگہ کھڑی ہے اس کا ہر دو ماہ بعد اسٹیٹ بنک اپنی رپورٹ دیتا ہے وہ پاکستان کی معیشت کا چہرہ دکھاتا ہے اس بار اسٹیٹ بنک نے جو اہم فیصلہ کیا وہ شرح سود کا تھا جو ایک بار پھر 7 فیصد رکھا گیا ہے جون 2020 سے یعنی 13ماہ ہو گئے اسٹیٹ بنک کی شرح سود 7 فیصد پر برقرارہے اسٹیٹ بنک نے ملک کی جو صورتحال دکھائی اس میں کوئی بڑی تشویش نہیں ہے۔ملک کی معاشی ترقی کی رفتار پر اسٹیٹ بنک کو اعتماد نظر آیا۔ اسٹیٹ بنک نے کہا کہ معیشت بھرپور انذاز میں آگے بڑھ رہی ہے لیکن مرکزی بنک ملک میں مہنگائی پر حکومتی توجہ چاہتا ہے گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ حکومت مہنگائی کو نیچے لانے پر توجہ دے۔مئی میں مہنگائی 9.7فیصد تھی جون میں 8.9 رہی لیکن موجودہ شرح 8.7 فیصد رہے گی۔پاکستان کے معاشی ماہرین تجارتی خسارے پر پریشان ہیں لیکن اسٹیٹ بنک نے اس تشویش کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ خسارہ اس لئے ہے کہ سال کے آخر میں ادا ئیگیوں اور مشینری خرید نے سے خسارے میں اضافہ ہوا ہے ۔کرنٹ اکائونٹ خسارہ گرنے سے تین قسم کے نقصان ہوں تو تشویش کی بات ہو تی ہے پہلی وجہ کرنٹ اکائونٹ خسارے بڑھنے کی رفتار بہت زیادہ ہو،دوسری وجہ ایکسچینج ریٹ ایک جگہ برقرار رہے، ہل اور تیسری وجہ یہ کہ اسٹیٹ بنک کے ریزرو گر رہے ہوں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ یہ تینوں چیزیں نہیں ہورہیں اس لئے کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھنے سے کوئی تشویش کی بات نہیں۔اسٹیٹ بنک کے مطابق پاکستان کی معاشی گروتھ اچھی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے،گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اقتصادی شرح نمو تقریباً 4 فیصد رہی۔اس وقت پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ،بجلی کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے،اگر کچھ کمی ہے تو مہنگائی کنٹرول نہیں ہو رہی ،اب جب کہ حکو مت کو تین سال مکمل ہونے کو ہیں اور آگے دو سال رہ گئے ہیں حکومت کے پاس اب صرف ایک سال بچا ہے، اسکے بعد والا سال تو الیکشن کا سال ہو گا حکومت اگر مہنگائی پر قابو پالے تو عوام میں زبر دست پزیرائی مل سکتی ہے ،مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے اہم ترین مسئلہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح ہے ، مہنگائی کا جن بے قابو ہونے کے باعث جہاں حکومت مخالف رائے مزید ہموار ہو رہی ہے و ہیں مصنوعی مہنگائی اور گراں فروشی کے باعث متوسط اور نچلے طبقے کے لیے زندگی گزارنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ایک طرف ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے تودوسری طرف زندگی بچانے والی ادویات سمیت بنیادی اشیا ضروریہ کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں عوام کے درمیان حکومت مخالف رائے ہموار ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔منافع خور مافیا نے اشیا ئے خورونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیا ء کو نا جائز طورپر ذخیرہ کرکے مصنوعی بحران پیدا کر دیا ہے جس سے ایک جانب عوام کی قوت خریدشدید متاثرہوئی ہے تودوسری طرف ملک میں آٹے،چینی،گھی،تیل،سبزیاں،گوشت اور دیگر اشیاضروریہ کی قیمتو ں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، غریب عوام کی محدود آمدنی ہے۔انھیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اورکبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں کوبڑھادیا جاتا ہے تو کبھی بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتیںآسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیں جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔منافع خور تاجر دکاندار اور آڑھتی بنیادی ضروریات خورونوش، پھل اور سبزیاں بہت زیادہ مہنگی کر دیتے ہیں جس سے عوام بالخصوص مزدور، دیہاڑی دار اور چھوٹے موٹے ملازمت پیشہ افراد انتہائی بری طرح پستے ہیں اور ان پر اس ناجائز بوجھ ڈالے جانے کی کہیں اور کسی فورم پر کوئی مناسب تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جب کھانے پینے کی اشیاء بازار میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور ان کی ترسیل بھی معمول کے مطابق ہو رہی ہے تو پھر کیوں ان اشیا خورونوش کو انتہائی مہنگا فروخت کیا جاتا ہے ،ان اشیاء کی قیمتیں فوراً کیوں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، ہماری مقامی پیداوار ہے، پھر اچانک ہر روز ان کو پر کیوں لگ جاتے ہیں؟ سرکاری اہل کار چند ایک دکانداروں کو جرمانے کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ دکاندار وہ جرمانہ گاہکوں سے وصول کر لیتے ہیں سرکاری اہل کار جرمانے کر کے دیہاڑیاں نہ لگائیں بلکہ ان منافع خوروں کا محاسبہ کریں۔حکومتی ذمے داروں کو عوام کے لیے ریلیف مہیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب حکومت پٹرولیم مصنوعات سستی کرتی ہے تو ان کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے جب پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو ہر چیز کو مہنگائی کے پر لگ جاتے ہیں، دکاندار پٹرول مہنگا ہونے کی دہائی دینا شروع کر دیتا ہے اور بسوں کے کرایوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔رکشا ٹیکسی کے کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں۔بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کو ملک کو درپیش چیلنجز کا بخوبی علم ہے اور اکثر وبیشتر اس حوالے سے اظہارخیال بھی کرتے رہتے ہیں۔اپنی تقاریر میں باربار ملائیشیا، چین،سنگاپور اور دیگر ممالک کے ماڈلزکا ذکر کرتے ہیں۔ چین نے گزشتہ40 سال کے دوران 700 ملین یعنی 70کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا ہے۔گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران ہر سال دس ملین یعنی ایک کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم چین کے ماڈل کو اپنانا یا فالو کرنا چاہتے ہیں تو کیا انہوں نے اس حوالے سے کسی تھنک ٹینک کا قیام عمل میں لانے کے بارے میں سوچا ہے ؟ وزیراعظم عمران خان کی زندگی کا خواب اور مشن ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی غربت کو دور کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے مناسب اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔عوام تو صبر کررہے ہیں لیکن مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تب ہی حقیقی معنوں میں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ ٭٭٭٭٭