سیاست اور حکومت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جو سیاست میں آتا ہے‘ حکومت کی لالچ میں آتا ہے۔ حکومت نہ ملے تو اپوزیشن لیڈر کہلاتا ہے۔ ہر حال میں حکومت کی مخالفت کرنا اس کا وظیفہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہ کثرت اپوزیشن لیڈر پائے جاتے ہیں۔ حکومت گرانے کے لئے اکثر سارے اپوزیشن لیڈر اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ طے نہیں ہو پاتا کہ حکومت گرا کر کون برسر اقتدار آئے گا تو یہ اتحاد تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جاتا ہے۔ حکومت اچھی چیز نہیں۔ سارا فتنہ و فساد حکومت ہی کے دم قدم سے ہے۔ حکومت نہ ہوتی تو عوام زیادہ مطمئن ہوتے اور عوام نہ ہوتے تو حکومت بھی نہ ہوتی۔ پس پتا چلا کہ فساد کی جڑ عوام ہی ہیں۔ عوام انہیں کہتے ہیں جنہیں بے وقوف بنایا جا سکے۔ جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جائیں۔ عوام کو بے وقوف اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جن لیڈروں سے ڈسے جاتے ہیں‘ ان ہی کے لئے لاٹھی اور گولی کھاتے ہیں اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو سبز باغ دکھا سکے۔ جو حکومت میں آئے تو سمجھا سکے کہ سارے مسائل پچھلی حکومتوں کی پیدا کردہ ہیں۔ عقل مند حکومت وہ ہے جو پچھلی حکومت کے منصوبوں پر اپنے نام کا سنگ بنیاد لگائے اور تالیوں کے شور میں ان کا افتتاح کر سکے۔ حکومت اچھی وہ ہوتی ہے جس کے وزراء پہلے بھی وزیر رہ چکے ہوں ناتجربہ کار وزیر اچھا وزیر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وزیر اعظم کو کیسے خوش رکھ کر اپنی وزارت پکی کی جاتی ہے۔ پہلی مرتبہ ہمارے ملک میں ایسی حکومت آئی ہے جو پرائم منسٹر ہائوس میں رہنا پسند نہیں کرتی‘ جسے گورنر ہائوسوں سے بھی بیزاری ہے۔ ایسی حکومت کو سادہ لوح اور نادان حکومت نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ۔یہ حکومت اپنے وزراء کے لئے پروٹوکول بھی نہیں چاہتی جس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ پنجاب کے چیف منسٹر کہیں جائیں تو ان کے آگے پیچھے صرف تیس پینتیس گاڑیاں ہوتی ہیں۔ اتنی تھوڑی سی گاڑیوں کو پروٹوکول نہیں کہا جاتا۔ اگر کہا جاتا تو چیف منسٹر کبھی اتنی گاڑیوں کو ہمراہ جانے کی اجازت نہ دیتے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ چیف منسٹر صاحب خالص دیسی ہیں اور پروٹوکول کے لفظی معنی سے بھی شاید ہی واقف ہوں۔ وہ روحانی وجوہ کی بنا پر اس منصب پر فائز کئے گئے ہیں اور اس لیے بھی کہ یہ پہلی حکومت ہے جو روحانی حکومت کہی جا سکتی ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو مولانا طارق جمیل سے پوچھ لے۔ وہ واحد مفتی ہیں جنہوں نے اس حکومت کو مذہبی یا روحانی حکومت ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ ہمیں مولانا طارق جمیل کے فتوے اچھے لگتے ہیں کیوںکہ ان میں بڑی انسان دوستی پائی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب علماء درباروں سے دور رہتے تھے۔ جانے اس میں کیا مصلحت ہو گی لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا تھا کہ حکومت وقت کے معاملات میں دنیا دار چھا جاتے تھے۔ حکومت سے علماء کی قربت اچھا اثر ڈالتی ہے کیوں کہ حکومت اچھی ہو جاتی ہے علماء خراب ہو جائیں تو اس میں تشویش کا کوئی پہلو نہیں کہ علماء اس کا بھی کوئی نہ کوئی شرعی جواز یقینا رکھتے ہوں گے۔ ہمارے ملک میں پارلیمانی جمہوریت ہے اس جمہوریت میں اختیارات کا مرکز وزیر اعظم کی ذات ہوتی ہے اور صدر مملکت کی حیثیت رسمی ہوتی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا جس کی وجہ سے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچا۔ صدر جب چاہتا تھا وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کی چھٹی کر دیتا تھا۔ اب صدر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔ البتہ کانفرنسں اور سیمیناروں سے خطاب کرنے اور وزیر اعظم کو مشورے دینے میں وہ آزاد سمجھا جاتاہے۔ ایک جمہوری حکومت ایسی بھی آئی تھی جس میں ایوان صدر کی دیواروں پہ خود صدر مملکت اپنی رہائی کے نعرے لکھتا ہوا پایا گیا تھا۔ مگر تحقیق سے کھلا کہ یہ واقعہ محض افواہ ہے۔جمہوریت میں اچھی بات فقط اتنی ہے کہ اس میں حکومت عوام کے ووٹوں سے بنتی ہے اور بندوق کے زور پہ برطرف کی جاتی ہے۔اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر حکومت آتی ہے‘ اسی کے حکم پر چلائی جاتی ہے اور نہ چلے تو گرا دی جاتی ہے۔ ہم اس قسم کی باتوں کو صحیح نہیں مانتے کیوں کہ ایسی باتوں کا کوئی ثبوت نہیں۔ ثبوت ہو بھی تو نہ ماننا ہی ہماری صحت کے حق میں مفید ہے۔ ہمارے ملک کو ایک ایسی تجربہ گاہ کہا جاتا ہے جہاں ہر قسم کی حکومت کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومت۔ قومی اسمبلی اس کی عدم موجودگی میں مجلس شوریٰ۔ فوجی حکومت‘ نیم فوجی حکومت‘ مارشل لائ‘ سول مارشل لائ۔ خاندانی حکومت وغیرہ۔ اتنے تجربوں کے باجوں نتائج ڈھاک کے تین پات ہی رہے ہیں۔ کسی حکومت سے بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہمارے عوام صبر و رضا کا بہترین نمونہ ہیں۔ ہر حکومت کو انہوں نے برداشت کیا ہے اور کبھی کسی کا اثر قبول نہیں کیا۔ جب بھی کوئی نئی حکومت آئی ہے‘ عوام نے مٹھائی بانٹی ہے اور جب بھی کسی حکومت کو ایک دہائی سے زیادہ مدت ہوئی ہے‘ اسے گرانے کے لئے عوام نے تحریک چلائی ہے اور اس کے لئے ڈنڈے اور گولی کھائی ہے۔ اسی لئے سیاست داں عوام کو ’’باشعور عوام‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ جب کسی حکومت کے خلاف تحریک چلائی جاتی ہے تو الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے لئے عوام میں بیرونی فنڈ کا استعمال ہوا ہے۔ اگر اس الزام میں ذرا بھی سچائی ہوتی تو عوام اس درجہ مفلس نہ ہوتے۔ بیرونی فنڈ سے اپنی حالت کو سنوار چکے ہوتے۔ہمارے ہاں جو فنڈ بھی عوام کے نام پہ آتا ہے اسے بیچ ہی سے اچک لیا جاتا ہے۔ کار پردازان حکومت چاہے وہ وزراء ہوں یا افسران ان رقوم سے اپنی معاشی حالت کو بہتر بنا لیتے ہیں اور عوام وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ اسی لئے عوام کو سادہ لوح کہا جاتا ہے اور ان کا نام لے کر ان ہی کو لوٹا جاتا ہے۔ عوام بے چارے لوٹ مار کا تماشا دیکھنے کے لئے دنیا میں آتے ہیںاور تماشائی کی حیثیت سے چلے جاتے ہیں۔ ان کی تقدیر کبھی نہیں بدلتی۔ کہا جاتا ہے جمہوریت عوام کے لئے‘ عوام کے ذریعے عوام پر حکومت کرنے کے لئے ہوتی ہے لیکن اس میں صرف ایک بات سچ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت خواص کے لئے‘ خواص کے ذریعے عوام پرحکومت کے لئے ہوتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی کوئی ایک تعریف ممکن نہیں۔ ہر ملک کے حالات کے مطابق ہی وہاں جمہوریت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت نے جتنے روپ دھارے ہیں‘ کسی اور ملک میں نہیں۔ جتنی تیزی سے ہمارے ہاں حکومتیں بدلی ہیں شاید یہ کسی اور ملک میں اتنی تیزی سے حکومتیں تبدیل ہوئی ہوں۔ ہماری جمہوریت کٹھ پتلی کا کھیل ہے۔ کٹھ پتلیاں پردے کے پیچھے سے ڈور کے ہلانے سے اچھلتی کودتی اور ناچتی و نچاتی ہیں جیسے ہی ڈور کا ہلنا بند ہوتا ہے یہ ناٹک بھی ختم ہو جاتا ہے۔ کیا حکومتیں اور کیا لیڈر سب تیار کئے جاتے ہیں اور کھیل تماشا ان ہی کے زور پہ دکھایا جاتا ہے اور جب معیاد ڈرامے کی پوری ہو جاتی ہے تو کھیل ختم پیسہ ہضم کہہ کر نیا تماشا شروع کر دیا جاتا ہے۔ جب کسی حکومت کے وزیر اعظم یہ کہیں کہ حکومت فوج اور عوام ایک پیج پر ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ فی الحال تبدیلی کا کوئی امکان نہیں اور جب عوام مہنگائی کی وجہ سے خودکشیوں پر آمادہ ہونے لگیں تو خبردار ہو جانا چاہیے کہ حکومت کی رخصتی قریب ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست کا نزدیک سے مشاہدہ کرنے والے جان چکے ہیں کہ حکومت کے گرنے گرانے کی مدت کتنی قریب ہے۔ ہر چند کہ سیاست و حکومت کے معاملات دو جمع دو چار کی طرح نہیں ہوتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سیاست و حکومت دو جمع دو پانچ ہی ہوتے ہیں۔ اگر حکومت چلانے میں دانش مندی شامل ہو جائے تو حکومت کی مدت بڑھ جائے مگر ایسا اس لیے نہیں ہو پاتا کہ سیاست اور دانش میں ہمارے ہاں کوئی تال میل نہیں۔ ہمارے ہاں دانش مند صرف تقریریں کرتے ہیں اور فیصلے وہ کرتے ہیں جو دانش سے محروم ہوتے ہیں۔