شہباز شریف کی گرفتاری ایک قانون شکن کی گرفتاری ہے‘ ہماری سیاست کی بہت سی مچھلیاں گندی ہیں اس لیے وہ کہہ رہی ہیں کہ یہ ضمنی انتخاب سے قبل دھاندلی منصوبے کا حصہ ہے۔ کہا گیا یہ جگنو راستے پر پڑی تاریکی میں سورج بن جائیں گے۔ ہمارے بزرگ جگنوئوں کے سورج بننے کا انتظار کرتے کرتے مٹھی پر پہرہ دیتے رہے جو امید دلانے والے تھے انہوں نے ساری کائنات کے چاند اور سورج اپنے آنگن میں ڈال لئے۔ ابا جی 50سال پہلے لاہور آئے تھے۔ ان کی ساری کمائی اولاد کی تعلیم پر خرچ ہو گئی۔ ہم نے ان کا ہاتھ بٹایا۔ کبھی قرض نہ چڑھنے دیا مگر آج ہمارے خاندان کا بزرگ سے لے کر شیر خوار بچہ تک ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہے۔ گویا جس گھر کے چھ افراد ہیں وہ 9لاکھ کا مقروض ہے۔ ہمارے علاقے ٹائون شپ کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہو گی اس کا مطلب ہے کہ ہمارے علاقے کے لوگوں پر 75ارب قرض ہے۔ میرے لیے حساب کا شمار مشکل ہو گیا ہے۔ اب اندازہ کیجئے کہ ہمارے ملک کی آبادی 21کروڑ ہے۔ 21کروڑ کو ڈیڑھ لاکھ سے ضرب دیں۔ آپ کا کیلکو لیٹر ہانپنے لگے گا۔ یہ قرض کیسے اتاریں گے۔ فرض کیا اپنی گردن آزاد کرا بھی لی تو اپنے بزرگ والدین یا شیر خوار بچوں کو اس قرض سے کیسے بچائیں گے جو آپ نے میٹرو بس کے شوق میں لے رکھا ہے۔ آپ نے قرض حسنہ نہیں لیا بلکہ سود پر لیا ہے۔ آپ کے گھر میں خوشی کی کوئی تقریب ہوتی ہے تو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ سود خور کو آپ کی ایک دن کی خوشحالی ہضم نہ ہو گی فوراً قرض کی واپسی کے نام پرخوشی غارت کر دے گا۔ آپ کے کسی عزیز نے جذبہ اخوت کے تحت کچھ رقم دی کہ کاروبار کر لیں۔ سود خور رقم کی واپسی کے نام پر آپ کے کاروبار پر قبضہ کر لے گا۔ یوں آپ پر رحم کھانے والے بھی آپ سے بدگمان ہوتے جائیں گے۔ یہ ایک فرد اور گھر کی کہانی ہو سکتی ہے مگر مجھے ایسا سب کچھ اپنے ملک کے ساتھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بتائیے موٹر وے اور ریڈیو پاکستان کی املاک سود خوروں کے پاس رہن کیوں رکھی گئیں۔ کاروباری افراد اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے قرض لیتے ہیں۔ قومیں کسی مشکل میں ہوں تو ایک طویل غورو خوض کے بعد ضرورت پڑے تو وہ قرض لیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنے گھر کی تعمیر کے لیے قرض لیا اور اس سے ایک نئی کار خرید لی تاکہ آپ اور آپ کا خاندان آسانی سے سفر کر سکے۔ کار میں پٹرول کیسے پڑے گا‘ اس کے لیے مزید قرض پکڑے گئے۔ بارشیں ہوئیں گھر کی چھتیں بیٹھ گئیں۔ صحن میں پانی جمع ہو گیا۔ سارا سامان غارت گیا۔ کچن اور واش روم کے حالات ناگفتہ ہو گئے۔ اب بتائیے قرضوں کا استعمال ٹھیک تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگی قیادت کاروباری خاندان سے ہے اور کاروبار دوست ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے ادوار میں لاہور شہر کے سی سی پی او نے ایک مرحوم تاجر کے ورثاء میں صلح کے نام پر املاک پر قبضہ کر لیا۔ شاہ عالم مارکیٹ میں دور دراز سے آنے والے تاجروں کے لیے لیٹرینیں بنوائی گئی تھیں‘ کچھ خالی پلاٹ پارکنگ و سماجی تقریبات کے لیے مخصوص تھے۔ اسی کی دہائی تک یہاں سب کچھ تھا۔ پھر تاجروں کی حکومت آئی پلاٹوں اور لیٹرینوں پر قبضے ہو گئے۔ اب یہاں پلازے بن چکے ہیں۔ لاہور میں ماڈل ٹائون موڑ کے پاس ایک 10کنال کا پلاٹ عین فیروز پور روڈ پر واقع ہے۔ ہم اپنے بچپن سے اس جگہ کو خالی دیکھ رہے ہیں۔ شائد یہ والٹن ایئر پورٹ کا ملحقہ رقبہ ہے۔ اس کے قریب ایک بڑی کچی آبادی ہے۔ اس کچی آبادی نے ایئر پورٹ اور اس پلاٹ کے درمیان میں گویا دیوار کھینچ دی ہے۔ اس پلاٹ کی مارکیٹ قیمت ایک ارب روپے تک ہو سکتی ہے۔ تین سال پہلے یہاں عشروں سے رہنے والے خانہ بدوشوں کو تین تھانوں کی پولیس کی مدد سے راتوں رات بیدخل کر کے دیواریں کھڑی کر دی گئیں۔ پولیس افسران جانتے ہیں کہ اس پر کس نے قبضہ کیا۔ اس معاملے میں پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کا نام آتا ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ وہ چھ سات پولیس افسران پنجاب کے حکمران خاندان کے لیے کیا خدمات انجام دیتے تھے جنہیں انسپکٹر سے شولڈر پروموشن دے کر ایس ایس پی اور ڈی آئی جی بنا دیا گیا۔ عدالت نے دو سال پہلے جب ان افسران کو اپنے اصل رینک پر واپس بھیجا تو انہوں نے طویل چھٹی لے لی یا پھر ریٹائرمنٹ کہ پھر سے انسپکٹر بن کر اپنے ماتحت رہنے والوں کا حکم کیسے مانیں۔ لاہور شہر میں بیس فیصد یو سی چیئرمین قبضہ گروپوں کے کارندے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جا رہی ہے جس میں سبزی کی دکانوں اور پھل کی ریڑھیوں پر بلڈوزر چلنے کو ’’تبدیلی‘‘ قرار دے کر قبضہ کے خلاف آپریشن کو غریبوں کے خلاف آپریشن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس گمراہ کن مہم کے پیچھے قبضہ گروپوں کا سوشل میڈیا ہے۔ یہ دکانیں اور ریڑھیاں غریبوں کی ضرور ہیں مگر یہ جس جگہ کاروبار کر رہے ہیں یہ سرکاری ہے یا پھر کسی ایسے مظلوم کی جسے مالکانہ حقوق کے باوجود یہاں قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ لاہور میں ایل ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر رانا یعقوب نے قبضہ کے خلاف جوہر ٹائون میں آپریشن کیا۔ ایک وزیر مملکت نے پانچ پلاٹوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ رانا یعقوب کی دیانت داری سے پورا محکمہ واقف تھا۔ انہوں نے آپریشن شروع کیا تو وزیر صاحب کے گھر کے ملازمین نے مزاحمت کی۔ رانا یعقوب نے کام جاری رکھا۔ وزیر صاحب سے فون پر بات کروانے کی کوشش کی گئی انہوں نے فون سننے سے انکار کر دیا۔ چار پانچ گھنٹے بعد ساری دیواریں گرا کر وہ واپس ہوئے۔ اگلے دن انہیں معطل کر دیا گیا۔ ان کے بھائی میرے دوست ہیں۔ میں نے رانا یعقوب کے لیے کالم لکھا۔ یہ کالم کسی اپوزیشن ممبر غالباً ن لیگ کا کوئی رکن ہی تھا۔ اس نے پارلیمنٹ میں پڑھا۔ حکومت پر بدنامی کا خوف بڑھا تو چند ہفتے بعد رانا یعقوب کو بحال کر کے کسی بے ضرر عہدے پر لگا دیا گیا۔ لاہور کے ہر ٹائون میں الگ الگ قبضہ گروپ موجود ہیں۔ یہ سب کسی جماعت کے وفادار نہیں۔ انہیں تحفظ درکار ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن انہیں پینتیس سال بچاتی رہی ہے تو وہ اس کے ساتھ رہے۔ اب بعض قبضہ گروپ تحریک انصاف سے قربت دکھا کر اپنے دھندے کو بچانا چاہتے ہیں مگر اچھی بات یہ ہے کہ اس بار کوئی انہیں بچا نہیں پائے گا۔ کیا یہ تبدیلی نہیں۔ ہم سب بگڑے ہوئے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔ گلیوں میں گھر کا کوڑا پھینک دیتے ہیں۔ سپیکروں کی آواز سے شور بڑھاتے ہیں۔ تجاوزات اور قبضوں سے کاروبار کو ترقی دیتے ہیں اور قرضے لے کر خوشحال بننے کی آرزو رکھتے ہیں۔ ہم سب کہیں نہ کہیں کوئی جرم‘ کوئی غفلت اور غیر ذمہ داری دکھا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ناتجربہ کار اور بدحواس کہہ کر ہم اپنے جرائم کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس پر ضرور سوچیے گا۔