لاہور( قاضی ندیم اقبال)حکومت نے کرتار پور راہداری پرمودی سرکارکی4تجاویز ماننے سے انکار کر دیا۔مصدقہ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے چار اہم نکات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکاجس کی بنیادی وجہ پاکستان کا ملکی سلامتی کے معاملات کو ترجیح دینے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر موجود مروجہ قوانین کی پاسداری ہے ۔ حکومت نے بھارتی حکام کو باور کرادیا کہ کسی فرد واحد یا ہمسایہ ملک کی خواہش پر ملکی یاعالمی قوانین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔مودی سرکار نے حکومت پاکستان سے پہلا مطالبہ کیا کہ انہیں دربار صاحب، شری کرتار پور صاحب پر قونصلر رسائی دی جائے جسے فوری رد کرکے قرار دیا گیا کہ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کو ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا، وہ راہداری کارڈ پر پاکستان کا دورہ کریں گے چونکہ بھارتی سکھ شہریوں کو ویزہ جاری نہیں ہو گا اس لئے بھارت کو دربار صاحب کرتار پور صاحب پر رسائی نہیں دی جا سکتی ۔بھارت نے دوسری تجویز دی کہ پاکستان آنے والے بھارتی سکھ شہریوں کو انٹرنیشنل قوانین کے تحت ڈیل کیا جائے ، حکومت نے یہ تجویز بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور بھارتی حکام کو باور کرایا کہ چونکہ بھارتی شہری بغیر ویزہ داخلی اجازت نامے راہداری کارڈ پر دربار صاحب کرتار پور آئیں گے لہذا ان پر پاکستانی قانون لاگو ہو گا، ملکی قوانین کے تحت انہیں جو آسانیاں فراہم کی جا سکتی ہیں وہ اس سے استفادہ کرسکیں گے ۔ بھارتی حکومت نے پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ایک دن کے لئے کرتار پور آنے والے سکھ شہری کسی بھی حوالے سے بھارتی سرکار کے خلاف ایکٹویٹی کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس بابت تحریری معاہدہ کیا جائے جس پر حکومت نے بھارتی وفد کو باور کرایا دربار صاحب کرتار پور آنے والے بھارتی سکھ شہری پاکستان اور بھارت مخالف کسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنیں گے اور جو خلاف ورزی کرے گا وہ مستقبل میں کرتار پور کے لئے بین کردیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق بھارتی سرکار نے چوتھی تجویز دی پاکستانی حکومت بھارتی سکھ شہریوں سے کرتار پور یاترا کے فی کس 20ڈالر وصول ضرور کرے مگر اسے پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدہ کا حصہ نہ بنائے جس کو حکومت نے یہ کہہ کر مسترد کر دیاکہ معاہدہ اوپن اور شفاف ہو گا تاکہ کسی بھی صورت اس پر شک نہ کیا جاسکے ،یاتریوں سے یاترا کی فی کس 20ڈالر وصولی کے معاملات کوتحریری شکل میں ضرور لایا جائے گا۔