حضرت عمر بن عبدالعزیز جب بار خلافت اپنے کندھوں پر لاد کر گھر میں داخل ہوئے تو آپ کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگی ہوئی تھی۔ آپ کی بیوی نے گھبرا کر پوچھا کہ کیوں خیریت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ خیریت کہاں ہے۔ میری گردن میں امت محمدیؐ کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ ننگے‘ بھوکے‘ بیمار‘ غلام‘ مسافر‘ قیدی‘ بچے‘ بوڑھے ‘ کم حیثیت، عیال دار وغیرہ سب کا بوجھ میرے سر آن پڑا ہے۔ اسی خوف میں رو رہا ہوں کہ کہیں قیامت میں مجھ سے پرسش ہو اور میں جواب نہ دے سکوں۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے فارس و روم کی سلطنتوں کو سرنگوں کر دیا تھا۔ مگر جوابدہی کے احساس سے تھر تھر کانپتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے’’اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو مجھ سے اس کا حساب کتاب لیا جائے گا۔اسی طرح آپ کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ اگر کسی راستے کے ناہموار ہونے کی وجہ سے بار برداری کا کوئی خچر ٹھوکر کھا کر گرا اور زخمی ہو گیا تو عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا‘‘ آج وہ وزیر اعظم شان بے نیازی سے کہتا ہے کہ ’’حکومت کرنا بڑا آسان ہے‘‘ جو 22برس تک اپنی قوم کو ریاست مدینہ کی تاریخ کی درخشاں مثالیں سنا سنا کر ان کا لہو گرماتا رہا۔ان کی پلکوں میں ایک سے بڑھ کر ایک سہانا سپنا سجاتا رہا۔ انہیں تابناک مستقبل کی نوید سناتا رہا اور آج جب ملک کے 60فیصد عوام کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں اور انہیں دو وقت کی نہیں ایک وقت کی روکھی سوکھی بھی میسر نہیں تو وہ وزیر اعظم اپنے عوام سے لاتعلق دکھائی دیتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ریاست مدینہ کا یہ شیدا اور دلدادہ عوام سے براہ راست مخاطب ہوتا، اپنے ایک ایک قول و قرار کا حساب دیتا۔ اپنے اندازے کی ایک ایک غلطی کا اعتراف کرتا، مخالفین کے سینوں کو طنز و طعنے کے تیروں سے چھلنی کرنے پر ان سے معذرت کرتا کیونکہ اسے خواہی و ناخواہی وہی کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو اس کے پیش رو کرتے رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں خان صاحب کو اندازہ ہی نہیں کہ بندہ مزدور و مجبور کے اوقات تلخ ہی نہیں تلخ تر ہو چکے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ اگر کوئی پرسان حال ہے تو فیصل واوڈا جیسے لوگ ہیں جو عوام کے زخموں پر مہم رکھنے کی بجائے ان کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک پاشی کرتے ہیں کہ پٹرول ایک سو کے بجائے 200روپے فی لٹر ہو گیا تو بھی لوگ خریدیں گے۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے سپیکر کہتے ہیں کہ عوام دو روٹیوں کی بجائے ایک کھائیں۔ جن بیچاروں کو ایک روٹی بھی میسر نہیں۔ جناب عمران خان ان سب وزیروں مشیروں اورقومی و صوبائی اسمبلی کے ممبروں کی اضافی مراعات ختم کریں انہیں اسمبلیوں میں اپنی خوشامد کرنے کی بجائے رمضان المبارک میں اپنے اپنے حلقوں میں بھیجیں تاکہ اپنی بھری ہوئی ذاتی جیبوں سے بے وسیلہ روزے داروں کو افطاریاں کروائیں۔ سستے رمضان بازاروں میں جائیں اور دیکھیں کہ خلق خدا کس حال میں ہے۔ جہاں سستی تو کجا اشیائے ضرورت ہی نایاب ہیں۔ جہاں پھلوں کی قیمتیں سن کر بیچارے لوگوں کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور جہاں ایک پائو لیموں لینے کے لئے گھنٹہ بھر قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔جناب عمران خاں خود بھی طیب اردگان کی طرح بنی گالہ سے اتر کر بغیر پروٹوکول کے کسی غریب کے دسترخوان کو وقت افطار شرف مہمانی بخشیں تو ان کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا اور انہیں عوام کے حالات سے براہ راست آشنائی بھی ہو گی۔ معلوم نہیں کہ جناب عمران خان کو اندازہ ہے یا نہیں کہ معیشت کو کس بے دردی کے ساتھ ڈیل کیا گیا۔پی ٹی آئی کے معاشی ماہرین کہتے آئے تھے کہ ان کی آمد سے پہلے گزشتہ 60برس کے دوران پاکستان نے 6000ارب روپے ٹوٹل قرضہ لیا اوراب تحریک انصاف کے اپنے قائدین کے بقول ان کی حکومت نے گزشتہ 8ماہ کے دوران 3000ارب روپے کے قرض لئے ہیں۔ گویا پاکستان نے جتنا قرض 30برس میں لیا اتنا اس حکومت نے صرف آٹھ ماہ میں لے لیا۔ تحریک انصاف کے آنے سے پہلے معاشی شرح نمو 5.9فیصد تھی۔ جواب صرف 3فیصد رہ گئی ہے پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے سے پہلے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 35فیصد تھی جو اب بقول وزیر اعظم عمران خان50 فیصد ہو گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم کچھ مدت کے بعد پھر بحران میں کیوں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اس کا ایک سبب تو وہ ہے جس کا ذکرحضرت عمر بن عبدالعزیز نے بیعت خلافت کے بعد اپنے پہلے خطے میں کیا تھا۔ آپ نے فرمایا ۔ میں کسی چیزکو شروع کرنے والا نہیں بلکہ اسے آگے بڑھانے والا ہوں۔ ہمارے ہاں جو بھی حکمران آتا ہے وہ پہلے سے جاری کام پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے اور کہتا ہے پہلے سب کچھ غلط ہوتا رہا۔ میں اب تبدیلی لائوں گا اور نیا پاکستان بنائوں گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی دور کی ترقی کی رفتار روک کر بڑی چھوٹی صنعتوں‘ بنکوں اور کاروباری فرموں کو قومیا لیا اتنے بڑے سکیل پر یہ قدم معیشت کے لئے خودکش حملے سے کم نہ تھا۔ اس کے برعکس گہری سوچ بچار کے میاں نواز شریف نے بہت سے اداروں کو پرائیویٹائز کر دیا۔ خاص طور پرتعلیم کی وسیع پیمانے پر نجکاری سے تعلیم و تربیت کوچہ و بازار میں رسوا ہو گئی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کرپشن ایک روگ ہے۔ ایک ناسور ہے اور ایک پرانا مرض ہے اس ناسور کا خاتمہ ازحد ضروری ہے مگر آپ نے دنیا میں کہیں یہ نہ دیکھا ہوگا کہ مریض کا سانس روک کر اس کا آپریشن کیا جائے خان صاحب نے سارا کاروبار معیشت و سیاست ٹھپ کر کے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ پہلے کرپشن کا علاج ہو گا پھرسڑکیں بنائی جائیں گی۔ پھر بے روزگاروں کو روزگار دیا جائے گا۔ چین سے لے کر امریکہ تک معاشی سرگرمیاں اور ترقیاتی کارروائیاں چلتی رہتی ہیں اور ساتھ ساتھ کرپشن کا آپریشن بھی جاری رہتاہے۔ ریاست مدینہ کہ جس کے ثمرات و برکات کا جناب عمران خان اکثر ذکر کرتے رہتے اس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔ اللہ کے آخری نبی کو ایک طرف وحی ربانی کی رہنمائی حاصل تھی اور دوسری طرف انہیں دانش نورانی عطا کی گئی تھی مگر ریاست مدینہ کا بانی ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مشورہ کرتا تھا اور پھر اجتماعی فیصلہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا بحران آئی ایم ایف کی سانس روک دینے والی شرائط ہیں۔ کاش خان صاحب اس موقع پر تاریخی کردار ادا کرتے وہی کردار جو ان کے سیاسی مرشد مہاتیر محمد نے ادا کیا تھا اورتمام مطالبات کے جواب میں ڈالر کے مقابلے میں رنگٹ کی قیمت 3.88فکس کر دی تھی۔ آئی ایم ایف والوں کے لئے وزارت خزانہ کی راہداریاں دیکھی بھالی ہیں مگر اس کے ان کے تیور بالکل بدلے ہوئے ہیں۔ خان صاحب اگر پندار ذات کی اونچی اونچی دیواریں بلکہ فصلیں مسمار کر کے مسلم لیگ ن سمیت سابقہ حکومتوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے اور حزب اختلاف سمیت ساری قوم کو لے کر کھڑے ہو جاتے تو آئی ایم ایف پاکستان کو ساتھ آٹھ بلین ڈالر کے لئے یوں ڈکٹیشن نہ دیتی۔ مگر خان صاحب پارلیمنٹ میں جواب دینے کو تیار نہیں مشورہ تو دور کی بات۔ اگر حکمران کو عوام کے سامنے‘ پارلیمنٹ کے سامنے اور خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس نہ ہو تو تبھی وہ شان بے نیازی سے کہہ سکتا ہے کہ حکومت کرنا بڑا آسان ہے۔