روزنامہ 92نیوز کی خبر کے مطابق حکومت نے عوام کے جان و مال کی حفاظت کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے پنجاب میں اسلحہ کلچر کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے پالیسی وضع کر دی ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں ہونے والے جرائم میں 70فیصد وارداتوں میں غیرقانونی اسلحہ استعمال ہوتا ہے۔ ماضی میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا اختیار ہر ضلع کے ڈی سی کے پاس ہوتا تھا نظام کے کمپیوٹرائزڈ نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد ایک لائسنس پر درجن بھر ہتھیار بھی جاری کرواتے ر ہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کے محافظوں کے غیر قانونی اسلحہ استعمال کرنے کی شکایات بھی عام رہی ہیں ۔غیر قانونی ہتھیاروں کی بہتات کا عالم یہ ہے کہ کراچی میں چار ہزار روپے میں ٹی ٹی پستول آ سا نی سے مل جاتا ہے۔ غیر قانونی اسلحہ کے استعمال کے رجحان کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتاہے کہ 2015ء سے 2017ء تک اسلحہ کے35لاکھ لائسنس جاری کئے مگر جب حکومت نے لائسنس کمپیوٹرائزڈ کرنے کا فیصلہ کیا تو صرف نو لاکھ افراد نے لائسنس کمپیوٹرائز کروائے باقی 26لاکھ لائسنس تو حکومت نے منسوخ کر دیے مگر ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان لائسنز پر جاری ہونے والا اسلحہ ابھی تک واپس نہیں لیا جا سکا جس کے جرائم میں استعمال ہونے کا خدشہ ہے ۔بہتر ہو گا حکومت اسلحہ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ غیر قانونی اسلحہ کے خلاف کریک ڈائون بھی کرے۔ جرائم پیشہ افراد کو غیر مسلح کر کے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔