عمران خان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خواب عوام کی ہی نہیں بہت سے خواص کی پلکوں میں بھی آویزاں کر دیے۔ خان صاحب کو کچھ غیبی دست شفقت بھی حاصل تھا۔ یوں انہوں نے بہت بڑی کامیابی سمیٹی تاہم اقتدار کے پہلے سال میں خوابوں کی پریشانی سے عوام بہت ہی پریشان حال ہیں مگر ابھی تک مایوس نہیں ہوئے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ اپوزیشن کی دی گئی۔ یوم سیاہ کی کال کے جواب میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھنے میں نہیں آیا۔ البتہ چاروں صوبوں میں عوام نے احتجاج ضرور ریکارڈ کروایا اورحکومتی ’’یوم تشکر‘‘ سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو حسن کارکردگی دکھانے کے لئے فری ہینڈ حاصل تھا۔ فوج اور حکومت ایک پیج پر ،جوڈیشری مشکلات پیدا کرنے والی نہیں اور اپوزیشن بہت بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود حکومت کے لئے ایوانوں کے اندر اور ایوانوں سے باہر کوئی بہت بڑا خطرہ نہیں۔ جس ایک محاذ پر عمران خان کی حکومت نے قابل قدر کارکردگی دکھائی ہے وہ خارجہ محاذ ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت جیسے ہمارے دوست ممالک جوبوجوہ سرد مہری کا رویہ اختیار کئے ہوئے تھے، عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ مل کر اس سرد مہری کو گرم جوشی میں بدل دیا اور فوری اقتصادی مشکلات پر قابو پا لیا۔ اس کام کے لئے انہیں پندار کا صنم کدہ ویران کرنا پڑا۔ مگر اس دوران یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ پندرہ بیس سالہ طویل سیاسی جدوجہد کے دوران عمران خان نے معیشت اور گورننس کے بارے میں کوئی ہوم ورک نہ کیا تھا اور نہ ہی کوئی ایسی ٹیم تیار کی تھی کہ جس کا کوئی ممبر جب اپنے شعبہ کے بارے میں لب کشائی کرتا تو لوگ پکار اٹھتے’’وہ کہیںاور سنا کرے کوئی‘‘۔پہلے چند ماہ میں ان کے اوپننگ بیٹس مین اسد عمر کی کارکردگی کا پول کھل کر سامنے آ گیا۔ قدرت کی کرم نوازی سے کسی محاذ پر کوئی غیر متوقع کامیابی حاصل ہوتی ہے تو چند دنوں کے لئے لوگوں کی توجہ تکلیف دہ مسائل اور مصائب سے ہٹ جاتی ہے۔ جیسے فروری میں بھارتی طیاروں کو مار گرانے اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری یا پھر اب بظاہر امریکی دورے کی کامیابی سے ہوا کے خوشگوار جھونکوں کا احساس ہوتا ہے، مگر بندۂ مزدور کے ہی نہیں بندۂ سفید پوش کے اوقات بدستور انتہائی تلخ ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں آئوں گا تو پٹرول سستا کر دوں گا، بجلی کے ریٹ کم کر دوں گا، گیس کے نرخ گھٹا دوں گا، غریب کو گھر کی دہلیز پر انصاف ملے گا اور بیمار کو علاج ملے گا۔ مگر ایک سال کے بعد عوام یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ بقول فیض ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوانہ تھے یہ مبالغہ آرائی نہیں حق گوئی ہے کہ عمران خان کے آنے کے بعد ہر وہ چیز کئی گنا مہنگی ہو گئی جسے سستا کرنے کی انہوں نے خوشخبری سنائی تھی۔ ساٹھ ستر فیصد عوام کا اپنے اپنے سابقہ معیار زندگی کے مطابق زندہ رہنا ناممکن ہو گیا ہے۔ عمران خان اپنی حکومت کی ہر ناکامی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ مگر اب عوام کہنے لگے ہیں کہ آپ اپنے ایک سال کا حساب دیں‘ ایک سال کا جواب دیں۔ جب آئی ایم ایف کی ہدایات پر حکومت اگست میں بجلی گیس اور دوسری اشیائے صرف کی مزید قیمتیں بڑھائے گی تو پھر عوام و خواص کے لئے یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ جنرل (ر) امجد نہایت سنجیدہ تجزیہ کار ہیں۔ گزشتہ شب وہ ایک ٹیلی ویژن شو میں کہہ رہے تھے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ پارلیمنٹ کا بہت شور مچاتی ہے مگر وہ پارلیمنٹ میں حکومت سے اتنی بھاری مقدار میں لئے گئے قرضوں کے بارے میں کیوں نہیں پوچھتی اور یہ سوال کیوں نہیں اٹھاتی کہ ان قرضوں کا سود کیسے ادا ہو گا اور قرضوں کی واپسی کیونکر ممکن ہو گی۔ اتنے بھاری قرضوں کے باوجود معیشت بلندی کی طرف نہیں انتہائی پستی کی طرف جا رہی ہے اور لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ اس وقت معیشت کی شرح نمو 2.4فیصد ہے اور ہماری آبادی کی شرح افزائش بھی 2.4فیصد ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ معیشت صفر پر کھڑی ہے۔ صفر شرح ترقی کے ساتھ 50لاکھ گھر کیسے بنیں گے‘ ایک کروڑ ملازمتیں کہاں سے آئیں گی؟ ٹیکس کا ہدف کیسے پورا ہو گا اور اندرونی بیرونی قرضے کیسے ادا ہوں گے؟ اس وقت تک کم از کم پندرہ لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں اور مزید 40لاکھ خط غربت سے نیچے آ گئے ہیں۔ان سارے سنجیدہ سوالوں کا عمران خان کے پاس ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے چور‘ ڈاکو لٹیرے۔ اب یہ جواب کارآمد نہیں رہے گا۔ جہاں تک گورننس کا تعلق ہے تو عوام کا یہی کہنا ہے کہ تھانے کچہری میں صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہے۔ امن و امان کی صورت حال اس سے بھی دگرگوں ہے۔ حکومت کے دس ماہ کے دوران پنجاب میں جرائم کی شرح میں 19فیصداضافہ ہوا ہے۔ اس سال کے دوران وہ وہ جرائم سامنے آ رہے ہیں جو پہلے پنجاب میں شاذو نادر ہوتے تھے۔ اغوا برائے تاوان کی دس مہینوں میں 27وارداتیں ہوئی ہیں جبکہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری اور چھیننے کی وارداتوں میں 36فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نو دس ماہ کے دوران پنجاب میں 4آئی جی تبدیل کئے جا چکے ہیں جبکہ ہائر ایجوکیشن کے 9سیکرٹریوں کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ خودی کا نشہ چڑھا ہو تو انسان دوسروں کو پچھاڑ کر بڑا سرور محسوس کرتا ہے۔ مگر صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ نفس کو پچھاڑنے کا اپنا ہی نرالا لطف ہے۔ عمران خان بھی صوفیائے کرام کا نام لیتے رہتے ہیں ذرا اس لطف سے آشنائی پیدا کریں اور اپنی ایک سالہ کارکردگی پر خود احتسابی سے کام لیں۔ اگرچہ عمران خان نے امریکہ میں کہا تھا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے مگر اب یہاں پریس ایڈوائنس کے بعد میڈیا کورٹس سننے میں آ رہی ہیں۔ شاید کچھ عرب حکمران اور عمران خان کے کچھ پاکستانی دوست انہیں اس راستے پر لگا رہے ہیں مگر عمران خان اس خطرناک راستے سے بچیں۔ یہ قائد اعظم کا جمہوری پاکستان ہے یہاں جس آمر نے بھی آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی کوشش کی وہ ناکام ہوا۔ کسی عرب دانا سے کسی حکمران نے پوچھا کہ حکمرانی و سلطانی کیا ہے؟ دانا نے جواب دیا حکمرانی پچاس فیصد فیاّضی اور پچاس فیصد درگزر و بردباری ہے۔ آج کے دور میں فیاّضی سے مراد گڈ گورننس ہے۔ عمران خان براہ راست دھمکیوں کا سلسلہ ترک کریں۔ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اپنی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیںاور اپنی تمام تر توجہ معیشت پر مرکوز کریں۔ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی۔ کاروبار جتنا پھلے پھولے گا ملک میں اتنی ہی خوش حالی آئے گی۔