ٹیکس چوری روکنا اور سیاستدانوں کا احتساب کرنا دو ایسے بڑے کام ہیں جو ہمارے جمہوری نظام میں ایک ساتھ نہیں کیے جاسکتے۔ اور اگر کیے جائیں گے تو ملک میں بے یقینی کی کیفیت اورسیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اِن د ونوں محاذوں کو بیک وقت کھولا ہُوا ہے۔ دنیا بھر میں سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے بہت سے وعدے کرتے ہیں لیکن سب کو پُورا نہیںکرپاتے۔ لمبے لمبے منشوردھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ عوام چند اہم باتوں پر اپنے لیڈروں کو پرکھتے ہیں اور ان کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ امریکہ کے صدر اوبامہ نے گوانٹانامو بے کو بند کرنے کا وعدہ کیا لیکن دو بار صدر منتخب ہونے کو باوجود پورا نہیں کرسکے۔ایسی بیشمار مثالیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان کی جنگ سے امریکہ کو باہر نکالنے کا وعدہ کیا تھا لیکن تین برس گزرگئے ابھی تک تو یہ عہد پُورا نہیں کرسکے۔ نواز شریف کی پارٹی ہر الیکشن میں لمبا چوڑا منشور دیا کرتی تھی۔ لیکن عمل کبھی اس کے دس فیصد پربھی نہیں کرپائی۔ جب نئے الیکشن ہوتے ہیں تو دو تین بڑے بڑے کام ہی حکومت میں رہنے والوں کو عوام کے ووٹ دلواتے ہیں۔ نوازشریف کی وسطی پنجاب میںمقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کا ترقیاتی کاموں پر زور تھا۔ انہوں نے انفراسٹرکچر کے ایسے بڑے بڑے منصوبے مکمل کیے جو اُن سے پہلے حکمرانوں نے نہیں کیے تھے۔ موٹرویز‘ شاندار ائیرپورٹس وغیرہ۔ ان منصوبوں سے ملک تو مقروض ہوا لیکن عام آدمی کو روزگار ملا اور ان منصوبوں کی چکاچوند نے لوگوں کو متاثر کیا۔ گزشتہ دور میں شہباز شریف نے جس طرح سبک رفتاری سے بجلی بنانے کے منصوبے مکمل کروائے اس سے بھی ن لیگ کی ساکھ اور مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ عام لوگ معیشت کی پیچیدہ باریکیوں میں نہیں جاتے۔ وہ تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت کے کاموں کا اُن کی زندگی پر کیا اثر ہوا۔ ن لیگ کی پالیسی کے برعکس تحریک انصاف نے بہت سے محاذ ایک ساتھ کھولے ہوئے ہیں۔ کرپشن کے خلاف مہم اور احتساب کے عمل سے عام معاشی سرگرمی متاثر ہورہی ہے‘ ملک میں سیاسی استحکام بھی نہیں آرہا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے باعث ملکی ترقی کو بریکیں لگی ہوئی ہیں‘ ایف بی آر کی ٹیکس چوری کے خلاف مہم نے تاجروں کو حکومت کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ وہ مظاہرے کررہے ہیں۔ ہڑتالوں کی دھکیاں دے رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں نے ہاتھ روکا ہوا ہے۔ تجارت‘ کاروبار میں مندی ہے۔ سیاسی مخالفین وزیراعظم عمران خان کی حکومت پر نااہلی کاالزام لگا رہے ہیں۔ انہیں ایک برس میں وہ کام نہ کرنے کے طعنے دے رہے ہیں جو دس دس برسوں میں سابق حکمران نہیں کرسکے ۔ وجہ صرف ایک ہے کہ عمران خان اپوزیشن رہنماوں کو کرپشن کے معاملہ پر رعایت دینے کو تیار نہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ انہوں نے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا احتساب ایک ساتھ شروع کرنے پر نیب کو روکا نہیں۔ کوئی مداخلت نہیں کی ۔ مسلم لیگ (نواز) اورپیپلزپارٹی کے بڑے بڑے لیڈرکرپشن‘ منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بار بار اپنا عہد دہراتے ہیں کہ وہ کرپشن کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں‘ کسی بااثر ملزم کو کوئی رعایت دینے پر آمادہ نہیں۔ وہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے۔ احتجاج انہیں کرپشن مقدمات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہہ چکے کہ وہ احتساب کے عمل سے پیچھے نہیں ہٹیں گے خواہ اُن کی حکومت جائے یا جان۔ وزیراعظم کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر انہیںعوامی حمایت کرپشن ختم کرنے کے نعرہ پرہی ملی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی لیڈر اقتدار میں آجاتا ہے تو اس سے عوامی توقعات ذرا مختلف ہوجاتی ہیں۔ معاشی ترقی‘ روزگار‘ مہنگائی کا خاتمہ‘تعلیم اور صحت کی سہولتیں‘ پولیس اور عدلیہ کے نظام میں بہتری جیسے دیگر مسائل کے حل کے لیے عوام حکومت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ معاملہ ترجیحات کا ہے۔ انہیں بہتر طور پر سمجھنے کا ہے۔کرپشن کا خاتمہ بلاشبہ ایک بڑا ایشو ہے لیکن روزگار ‘ مہنگائی کاخاتمہ اور تعلیم و صحت کی سہولتیں زیادہ بڑے مسائل ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ سال دو سال میںممکن بھی نہیں۔ یہ تو ایک طویل عمل ہے۔ بددیانتی کی جڑیں معاشرہ میں بہت گہری ہیں۔ صرف سیاستدان ہی کرپٹ نہیں۔ سرکاری افسر اور اہلکار اورکاروباری افراد کی بددیانتی بھی عام ہے۔کرپشن تو ماتحت عدلیہ میں بھی ہے۔ ان سب سے نپٹنے کو قوانین میں بہتری درکار ہے اورمستقل مزاجی سے طویل جدوجہد۔ وزیراعظم عمران خان اگر حقیقت پسندی سے کام لیں تو اُنہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ عوام نے عام انتخابات میںاُن کی جماعت کو واضح اکثریت نہیں دی تھی‘ محدودمینڈیٹ دیا تھا۔ اس وجہ سے وہ کچھ حدود میں رہ کر ہی کام کرسکتے ہیں۔ان کو اپنے منشور پر مکمل عمل درآمد کرانے کیلیے آئینی ترامیم درکار ہیں جو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت سے منظور کی جاسکتی ہیں لیکن اتنی بڑی اکثریت تو دُور کی بات ہے ان کے پاس تو سادہ اکثریت بھی نہیں۔ اگر وزیراعظم اپنے منشور اور وعدوں پر مکمل عمل نہیں کرپاتے تو وہ عوام سے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں جو محدود مینڈیٹ ملا تھا انہوں نے اس کے مطابق کام کیا۔ پاکستان ایسے ملک میں جہاں مسائل بہت زیادہ ہیں اور وسائل بہت محدود‘ حکمرانوں کا یہ طے کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ کون کون سے کام پہلے کرنے ہیں اور کِن کاموں کو آہستہ آہستہ کرنا ہے۔ ایک منتخب حکومت کو رائے عامہ کو اپنے ساتھ رکھنا بہت ضروری ہے۔ آمریت میں تو طاقت کے بل پر مخالفت کو دبایا جاسکتا ہے اسلیے رائے عامہ کی پرواہ نہیں کی جاتی لیکن جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں۔ ایسے کام کرنے کا کیا فائدہ کہ رائے عامہ آپ کے خلاف ہوتی جائے۔ موجودہ صورتحال میں بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی ترجیحات طے کرے۔ ایک جمہوری نظام میں چیزوں کو بتدریج ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ حکومت یہ طے کرے کہ اسے سیاستدانوں کا احتساب زور و شور سے جاری رکھنا ہے یا کاروباری افراد سے ٹیکس وصولی میں سختی کرنی ہے۔ گو دونوں کام ہی ملک و قوم کیلیے بہت ضروری ہیں لیکن دونوں معاملات پر سخت ایکشن بیک قت نہیں لیا جاسکتا۔ حکومت پہلے کوئی ایک کام مکمل کرلے۔ پھر دوسرا کام چھیڑے۔