چند لمحے جو ملے مجھ کو تیرے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے پڑھنا پڑی ہم کو بھی کتاب ہستی باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے زندگی سمجھ میں آ جائے تو زندگی کرنا بھی آ جاتا ہے مگر یہ ہے اک بجھارت سی‘ وہی کہ کس لئے آئے تھے اور کیا کر چلے والا معاملہ ہے۔ ذوق کی اس غزل کا مطلع بھی تو لاجواب ہے۔لائی حیات آئے ‘ قضا لے چلی چلے۔ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے۔ ویسے بھی خوشی کو غم کے طویل فقرے میں رموز اوقاف کی طرح سمجھا گیا ہے کہ یہ کہیں کہیں نصیب ہوتی ہے۔ رموز اوقاف کے حوالے سے مجھے مشتاق احمد یوسفی کا ایک جملہ یاد آ گیا کہ انہوں نے ہمارے ایک نوجوان مزاح نگار کے حوالے سے کہا کہ انہیں واوین لگانے سیکھ لینا چاہیے مگر اس سے نقصان یہ ہو گا کہ ان کے چند اچھے جملے بھی کسی کے نام لگ جائیں گے۔ تمہید تو اس مقصد کے لئے کہ کام کی اہمیت بیان کی جائے کہ اسے بامقصد کیسے بنایا جائے۔ ایک وزیر نے کہا ہے کہ شہباز شریف کی کرپشن کو سامنے لانا میری ترجیح ہے۔ یقینا یہ ان کی زندگی کا عظیم مقصد ہے اب سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اس بیان پر ہنسے یا روئے آپ کی پوری جماعت دو سال اسی کام پر لگی ہوئی ہے نیب بھی آپ کے ساتھ ہلکان ہو چکا ہے دو برسوں میں بھی آپ کا نعرہ کرپشن نتیجہ خیز نہیں رہا اس تحقیق و تفتیش میں آپ اتنے منہمک ہوئے کہ اصلی کام جو کرنے والے تھے وہ ناکردہ ہی رہ گئے۔رات کے اندھے مسافر کو ملا کچھ بھی نہیں‘نہیں چھوڑوں گا نہیں چھوڑوں کی گردان سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے اور جسے نہیں چھوڑنا تھا وہ آپ سب کو پیچھے شور مچاتا چھوڑ کر یہ گیا اور وہ گیا ہم تجھے چھوڑ نہیں سکتے تھے پر چھوڑ دیا۔ پھر شہباز شریف بھی پیچھے ہی چلے گئے تھے ایسے ہی جیسے نورجہاں کو شہزادنے پوچھا تھا کہ کبوتر کیسے اڑ گیا۔ نور جہاں نے دوسرے ہاتھ سے دوسرا کبوتر بھی چھوڑتے ہوئے کہا کہ یوں: پوچھا جو میں نے یار سے اڑتے ہیں ہوش کس طرح دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں اب کچھ ڈلیور کریں۔ کم از کم اقبال کی نظم بلبل اور جگنو ہی پڑھ لیں کہ جگنو کیا کہتا ہے کہ گرچہ کیڑا ہوں میں ذرا سا‘ میں راہ میں روشنی کروں گا‘ کرپشن کو ٹارگٹ کرتے کرتے کرتے آپ نے اپنے لوگوں سے اغماض کیا۔ شہباز کرے پرواز تے جانے راز دلاں دے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ پرواز رکھ بلند کہ بن جائے تو عقاب اب کرپشن کی کہانی میں کچھ باقی نہیں۔ آپ ایک لمحے کے لئے ایم کیو ایم کے بارے میں عمران خان کے خیالات اور موجودہ صورت حال میں ان کے ساتھ رفاقت ہی کو دیکھ لیں بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے۔ چلو چھوڑو حکومت بہرحال اس حوالے سے تو کامیاب ہے کہ کوئی گل کھلا دیا یا کوئی چاند چڑھا دیا۔ سارے بحران سارے شوشے انہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں پتہ نہیں ان کا دماغ کیسے سوچتا ہے ۔ایسی افتاد طبع کہ بس اب فرما رہے ہیں کہ وہ لاہور کے شمال میں دبئی جیسا شہر بسائیں گے بندہ پوچھے پہلے شہر تو آپ سے سنبھالے نہیں جا رہے دوبئی تو ثقافت کے اعتبار سے بھی ایسا آفاقی شہر بن چکا ہے کہ دنیا جاگتی ہے۔سب ڈاکو اور چور وہاں جا کر بس جاتے ہیں۔ جائیدادیں بناتے ہیں ان سے کچھ بعید نہیں کہ ایسا سیٹ یہاں لگا دیں اور پھر امر بالمعروف اور نہی عن منکر والا طبقہ اٹھ کھڑا ہوا کہ ادھر نہ دبئی کی گنجائش ہے نہ بنکاک کی۔ ویسے اس سے پہلے لاہور کو پیرس بنانے کی بات تو شہباز شریف نے کی تھی اور اس کی صفائی ستھرائی ترکی کو دے دی ہم صفائی بھی خود نہیں کر سکتے ہمیں تو صرف گند ڈالنا ہی آتا ہے اور جی بھر کر ڈالتے ہیں ہر نیا آنے والا حکمران یہی کہتا ہے کہ وہ پچھلوں کا ڈالا ہوا گند صاف کر رہا ہے اور اسی کارکردگی میں اس کا حکومتی دورانیہ پورا ہو جاتا ہے کسی نے آنے والوں کے لئے راستے صاف نہیں کیے۔ بلکہ راستے بند ہی کیسے ہیں: راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے چلیے اب اتنا شکوہ بھی تو ٹھیک نہیں کوئی اچھا کام کرے تو اسے سراہنا بھی دیانتدار ہے۔ سرکاری گندم فوری طور پر مارکیٹ میں لانے کا حکم دیا گیا ہے اور نئے ہائوسنگ سکیم میں ہر گھر پر 3لاکھ سبسڈی دینے کا اعلان ہوا ہے۔ اب عملی جامہ کب پہنایا جائے گا یہ خان صاحب خود بھی نہیں جانتے ہونگے سستے آٹے کے لئے سستے بازار شاید کچھ نہ کچھ کھل جائیں مگر اس ساری کاوش کے باوجود روٹی نان والے ان احکامات سے خود کو مبرا سمجھ رہے ہیں۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ روٹی آٹھ روپے اور نان 15روپے کا ملے گا۔ چلیے حکومت کی ترجیحات میں اولین ترجیح نواز شریف کی کرپشن پکڑنا ہے لیکن اب ان کی ترجیحات میں مولانا فضل الرحمن کا مکو ٹھپنا بھی آ گیا ہے کہ مولانا بھی ان کی ناک پر لڑے ہوتے ہیں ایک مرتبہ پھر وہ کراچی کے بلاول ہائوس میں بلاول اور زرداری کے ساتھ مل کر مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ کچھ احباب کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اگلے تین سال مصلہ بچھا کر سیاسی اور مالی گناہوں پر استغفار کریں۔مصلے سے مجھے یاد آیا کہ کسی نے ضیاء الحق کے مارشل لاء لگانے پر کہا تھا کہ موصوف نے گٹر پر مصلہ یعنی جائے نماز بچھا لیا ہے اب کیا کریں ویسے مولانا بھی اب تک نہ چین سے بیٹھے ہیں اور نہ کسی کو چین سے بیٹھنے دیا ہے۔