حکومت معاشی استحکام کے نعرے لگا رہی ہے اور عوام منتظر ہے کہ اس ترقی اور خوشحالی کے ثمرات انہیں کب ملیں گے؟ وزیر اعظم عمران خان ملک میں خوشحالی لانے کیلئے خود میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعظم اگلے ہفتے ازبکستان کا دورہ بھی کر رے ہیں، افعان ٹرانزٹ ٹریڈ میں ازبکستان کی شمولیت کے معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی، وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی سے پاکستان کیلئے 90 ارب ڈالر تجارت کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اور اس مالی سال کیلئے 35 ارب ڈالر کی برآمدات کا جو ہدف رکھا گیا ہے وہ حاصل کرنا بھی ممکن ہو سکے گا۔حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے۔ اسکے علاوہ بے روز گاری بھی کسی اژدھے کی طرح منہ کھول کر کھڑی ہے، اب وزیر اعظم عمران خان کی یہی حکمت عملی ہوگی کہ کسی طرح مہنگائی پر قابو پایا جائے کیونکہ اپوزیشن جس چیز کو سب سے زیادہ اٹھا رہی ہے وہ مہنگائی ہے۔ حکومت کو تین سال پورے ہونے والے ہیں،اب ایک ہی سال بچا ہے، اس سے اگلا سال تو الیکشن کا سال ہو گا۔ یہ ایک سال حکومت کیلئے بہت ہی اہم ہے۔اب نئے مالی سال کے8دن گزر گئے بجٹ پر عمل در آمد کیلئے دن گنے جائیں گے۔ اگلے 360 دن میں ملکی معاشی سمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ بجٹ میں جودعوے کئے گئے ،انہیں عملی جامہ پہنانے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ اپوزیشن نے بھی کمر کس لی ہے اور حکومت کیخلاف جلسوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایک جلسہ سوات میں ہو چکا۔ حکومت کو اس مالی سال میں5859 ارب روپے جمع کرنے ہیں اور جی ڈی پی 5 فیصد گروتھ کا بھی ہدف ہے، دونوں ہدف مشکل ضرور ہیں لیکن وزیر اعظم اور وزیر خزانہ دونوں پر عزم ہیں کہ دونوں ہدف حاصل کر لیں گے۔اس مالی سال میں ٹیکس آمدن میں 25 فیصد اضافہ اور گروتھ میں ایک فیصد اضافہ مشکل ضرور ہے لیکن ماہرین کہتے ہیں نا ممکن نہیں۔وزیر خزانہ کی ٹیم معاشی ترقی اور استحکام کیلئے اور ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کیلئے بہت پر امید ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق انکی پہلی ترجیح زراعت،ایکسپورٹ اور غریب عوام کیلئے بلا سود قرضے اور ٹیکس کو بڑھانا ہے۔ان میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا سب سے اہم ترجیح ہے۔یونیورسل سیلف اسیسمنٹ اسکیم آنی ہے ،ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم آرہا ہے،پوائنٹ آف سیل میں اضافہ ہو رہا ہے، اس سے ڈاکیو منٹڈ اکانومی میں اضافہ ہو گا۔ماہرین کے مطابق وزیر خزانہ نے جو پری اورٹی سیٹ کی ہے وہ درست سمت میں ہے ،یہی تین چار جیزیں ہیں جو مستحکم گروتھ کی طرف ملک کو لے جاسکتی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو کرنٹ صورتحال ہے، جس سے پاکستان گزر رہا ہے وہ کیسے امپیکٹ کرے گا ۔ مثال کے طور پر اس وقت تیل کی قیمتیں 25 ڈالر کے قریب پہنچ گئی ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ قیمتیں ابھی مزید بڑھیں گی جب عالمی منڈی میں تیل کی بڑھیں گی، تو یقیناً پاکستان میں بھی بڑھیں گی تو تیل کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا پھر سے سیلاب آئے گا۔ حکومت اس سے کیسے نمٹے گی؟ سوچنے والی بات یہ ہے۔اسی طرح سیمنٹ، سریا ،اینٹ اور دیگر اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں، اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے اسٹیٹ بنک انٹرسٹ ریٹ نہ بڑھا دے، اگر انٹرسٹ ریٹ بڑھا تو اور مشکلات ہونگی اور فنانس ٹیم کی گروتھ اسٹیریٹجی متاثر ہو گی۔دوسرا یہ کہ ریونیو ٹارگٹ حاصل کیا جا سکتا ہے، اس کی وجہ کہ ہماری جی ڈی پی گروتھ درست سمت میں جا رہی ہے لیکن مہنگائی ہو سکتا ہے کہ کچھ اور بڑھے کیونکہ ہما راٹیکسیشن کا جو نظام ہے وہ زیادہ تر ان ڈائیریکٹ ہے اور امپورٹ بیس پر ہے تو جو امپورٹ انفلیشن بڑھے گی، تو اس سے ہمارا ٹیکسیٹن بھی بڑھے گا، جو اچھی چیز تو نہیں ہے لیکن اس سے ریونیو ٹارگٹ حاصل کرنے میںآسانی ہو گی۔ماہرین کے مطابق آمدن تو بڑھ جائے گی لیکن زیادہ مسئلہ اخراجات پر قابو پانا ہے۔ اخراجات پر قابو نہ پایا گیا تو آمدن کسی کام کی نہیں۔ اخراجات سے مراد وہ خرچے جو غیر ضروری ہیں، وہ اربوں روپے تک ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نے سادگی اپنانے کی ہدایت تو کی۔ اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرانا ہو گا۔ایک مسئلہ ہمارا انرجی سیکٹر ہے وہ مسئلہ حل ہی نہیں ہو پا رہا ۔ہر ماہ ہرسال ہمارا سرکولر ڈیبٹ بڑھتا جا رہا ہے، اس میں اربوں روپے اضافہ ہو رہا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں مہنگائی دو طرح کی ہے ایک تو امپورٹڈ چیزیں ہیں،دوسری ہماری زرعی اجناس ہیں۔ لوکل پیداوار ہے۔وزیر خزانہ نے صحیح کہا ہے ہم پہلے اجناس ایکسپورٹ کرتے تھے ،اب امپورٹ کر رہے ہیں، ہم اپنی زرعی پیداوار بڑھا کر مہنگائی کم کرسکتے ہیں اور یہ کرنا ہوگا کیونکہ ہماری آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اگر ہم نے زراعت پر توجہ نہ دی اپنی فصلوں کو نہ بڑھایا تو کافی مشکل حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان پچھلے دنوں گوادر گئے وہ بلوچستان کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور کافی سر گرم ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ میں خواب دیکھتا ہوں، پاکستان بڑا عظیم ملک بننے جا رہا ہے ،گوادر فوکل پوائنٹ بننے لگا ہے۔ جدھر سے سارے پاکستان کو فائدہ ہو گا اور خاص طور پر بلوچستان کو فائدہ ہو گا ۔ چین کے تعاون سے ایسی انڈسٹری لگے گی ،جس سے ہم بہت کچھ ایکسپورٹ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایکسپورٹ پر زور لگانا ہوگا جب تک ڈالر ملک میں نہیں آئیں گے ہمارے حالات بہتر نہیں ہونگے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے گوادر کا انفرا اسٹرکچر تو بن گیا تھا لیکن اس کا کام سست روی کا شکار تھا،شپمنٹ پالیسی پچھلے سال منظور ہوئی اسکے علاوہ فری زون اور ایگریکلچرل پارک جس کا وزیر اعظم نے افتتاح کیا یہ اچھا کام تھا۔اسکے علاوہ چین سرمایہ کاروں نے وہاں پاور پلانٹ لگانے تھے اس کا نیپرا نے ابھی تک پاور ٹیرف منظور نہیں کیا تھا، اسی طرح ایسٹرن ہائی وے پر کام بھی پچھلے سال شروع ہوا ۔گوادر جو فری زون بننے جا رہا ہے اس کے لئے جو ٹیکس مراعات تھیں، وہ بھی پچھلے سال بجٹ میں دی گئیں یہ سارا کام پچھلے 7یا8 سال میں ہوجا نا چاہئے تھا لیکن پھر بھی دیر آید درست آید اب کام شروع ہو گیا ہے۔ گوادر پورٹ کے ساتھ جو بیلٹ اینڈ روڈ جس سے صرف پاکستان اور چین ہی نہیں یہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی کنیکٹ کرے گا،تو جب گوادر پورٹ پوری طرح فنکشن ہو گا یا فری اکنامک ڑون فنکشن ہوگا ،ایگریکلچرل پارک،ایکسپو سنٹر کام شروع کردے گا اور اس کے ساتھ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو جاتا ہے تو سنٹرل ایشیا کے ممالک تک ہماری رسائی ہوگی اور اس کاپاکستان کو بہت فائدہ ہو گا ،وسطی ایشیائی ریاستوں میں سے کسی کے پاس بھی اپنی بندر گاہ نہیں ۔گوادر کے ذریعے انہیں ہم دنیا تک رسائی دے سکتے ہیں۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ہم کارو بار کر سکتے ہیں،اسکے علاوہ گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ دنیا سے براہ راست منسلک ہو گا۔کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ گوادر ایئر پورٹ بننے سے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار متاثر ہوگی اور ایران سے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو گا کیونکہ چین اب ایران، پاکستان افغانستان میں براہ راست سرمایہ کاری کر رہا ہے، تو چین شاید ایسا نہ ہونے دے ۔اس وقت چین بہت اچھا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اب وسطی ایشیائی ریاستوں میں ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔